ڈاکٹر عمران فاروق کا برزخ سے خط
پیارے عزیز ساتھیوں اور ہر دل عزیز بھائی اور میرے بچوں،
السلام وعلیکم اور آداب،
مجھے یہاں برزخ میں پہنچے آج پورے 9 برس گزر گئے، ہر سال نئے ساتھی اور حق پرست یہاں پہنچتے ہیں جو آکر کراچی اور قوم کی صورتحال کے حوالے سے آگاہ کرتے ہیں، مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک حالات ٹھیک نہیں ہوئے مگر خوشی اس بات کی ہے کہ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو وفا کے نام کو بدنام نہیں بلکہ زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
ابھی گزشتہ دنوں ابو بھی یہاں پہنچ گئے وہ بہت بوڑھے ہوگئے تھے، مگر اب امی یا شمائلہ کو فکر کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم دونوں ایک ہی جگہ ہیں، تقریبا ایک ہی مکان ہے، گراؤنڈ فلور پر ابو اور میرا کمرہ سیٹ ہے، یہاں ہماری خدمت کے لیے بھی لوگ مقرر ہیں، ابو نے آکر سارے حالات بتائے، سُن کر افسوس ہوا اور کچھ باتیں سُن کر میں نے ابو پر غصہ بھی کیا جس پر وہ مسکرائے اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب آج بھی تحریکی معاملے میں آپ کا غصہ ویسا ہی ہے۔
کئی ساتھی میرے آنے کے بعد یہاں پہنچے، علی رضا عابدی اور پروفیسر حسن ظفر عارف سے بھی ملاقات ہوئی، مجھے جہاں دیگر کو دیکھ کر حیرت وہی وہیں ایک ایسا نوجوان ساتھی وقاص شاہ بھی نظر آیا ، اُس نے مجھے بتایا کہ وہ تو کچھ بھی نہیں بلکہ ایک سے بڑا ایک وفادار موجود ہے جو قوم اور آنے والی نسلوں کی بہترین مستقبل کے لیے ہر قسم کی قربانی دے سکتا ہے۔
علی رضا عابدی بھی ایسا متاثر کن نوجوان نکلا جس کے جلدی آنے پر مجھے افسوس ہوا مگر اُسے ثابت قدمی کے ساتھ یہاں آنے پر بہت فخر ہے، پروفیسر حسن ظفر عارف سے ملاقات ہوئی اور میں نے اُن سے شکوہ بھی کیا کہ آپ اُس وقت ساتھ ہوتے تو ہم بہت سارے اہم اہداف حاصل کرسکتے تھے، پروفیسر میرا شکوہ سُن کر مسکرائے اور کہنے لگے ہر چیز کا وقت مقرر ہے۔
ساتھیوں یہاں پر مہاجر شہدا کے نام سے ایک بڑا علاقہ بن چکا ہے، جہاں مختلف مظالم سہنے اور وفا کا سودا نہ کرنے والے ساتھی، بزرگ ، باجیاں موجود ہیں، ابھی چند روز پہلے میری سلیم شہزاد بھائی سے بھی ملاقات ہوئی وہ تھوڑی دور رہتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ بیماری کی وجہ سے یہاں پہنچ گئے۔
میرے بیٹوں عالی شان اور وجدان بات سنو، دیکھو جب آپ حق پر چل رہے ہوتے ہو تو زندگی میں ایسے واقعات ہوتے ہیں، آج ایک کمرے میں رہ رہے ہو، امی پاس ہیں، تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ میں نے تو ریاستی جبر و تشدد کی وجہ سے سالوں امی اور ابو سے دور گزارے، آپ لوگ تو دیکھ بھی لیتے ہیں میری تو کئی کئی مہینے فون پر بات نہیں ہوتی تھی، ہمت اور حوصلے سے رہو، اپنی امی کا خیال رکھو، اُن کی بیماری کے بارے میں بھی پتہ چلا، اس میں گھبرانے کی بات نہیں کیونکہ تم میرے بچے ہو اور تمھارے پاس الطاف دادا ہیں، اُن سے بات کرلیا کرو۔
اب میں اپنی اہلیہ کو متوجہ کررہا ہوں لہذا اب سب کوئی یہ نہ پڑھے! مجھے معلوم ہے کہ آپ میرے بغیر بہت مشکل اور کٹھن وقت گزار رہی ہیں، مگر یاد ہے نا کہ ہم دونوں نے وعدہ کیا تھا اور عہد کیا تھا کہ چاہیے جیسا بھی وقت ہو ، ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، آپ ہمت نہیں ہاریں، یہ مسائل آپ کی چٹان جیسی ہمت کے آگے کچھ بھی نہیں ہیں، میں آپ کے ساتھ ہوتا ہوں اور مجھے سب معلوم ہوتا ہے، تین روز پہلے تو میرا دل پسیج گیا تھا کہ آپ موت کو یاد کررہی تھیں۔
دیکھیں ! آپ کو بچوں کا خیال رکھنا ہے، عالی شان اور وجدان کو آپ نے ماں اور باپ دونوں بن کر پالا، اب تو وہ بڑے بھی ہوگئے، شاید آپ کے کاندھے تک آنے لگے ہوں گے، تھوڑے سے دن کی اور بات ہے پھر عالی شان برسر روزگار ہوجائے گا تو معاشی مسائل حل ہو جائیں گے، باقی مجھے اس بات کی بہت زیادہ خوشی ہے کہ جو خوداری تھی آپ لوگوں نے اُسے برقرار رکھا۔
یہاں ساتھیوں نے میری آمد کے حوالے سے تعزیتی پروگرام کا انعقاد کیا ہے، ہر سال یہاں دعا ہوتی ہے کہ قاتل، قتل کی سازش کرنے والے، اس کے سہولت کار جلد اللہ کی گرفت میں آئیں، یہاں تو بڑے بڑے ایسے فرعون ہیں جو اپنے آپ کو بہت بڑی چیز سمجھتے تھے، مگر فرشتوں کے آگے بے بس ہیں، میرے قاتل بھی کتنے ہی طاقتور ہوں ، یہاں ضرور پہنچیں گے اور میں اُن کا گریبان ضرور پکڑوں گا۔
اب میں اجازت چاہتا ہوں، بس بھائی کی ایک بات یاد رکھو کہ ’’کبھی مایوس نہیں ہونا‘‘ کیونکہ حق آنے اور باطل مٹ جانے کے لیے ہے۔
والسلام،
آپ سب کا اپنا
عمران فاروق
تحریر : سیدہ حرا علی