دبئی پہنچنے کے بعد کوشش تھی کہ وہاں موجود مختلف سیاسی شخصیات سے بھی ملاقات ہوجائے تو اچھا ہے۔ شرجیل میمن سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی، مگر ان کا موبائل فون مسلسل بند ہونے کہ وجہ سے ملاقات نہ ہوسکی۔
سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان سے ہفتے کی شام کا وقت طے تھا، مگر انھوں نے اپنی نجی مصروفیات کے باعث خواہش ظاہر کی کہ پیر کی شب ملاقات کرلی جائے تو بہتر ہے۔ ڈاکٹر عشرت جمیرا (Jumeirah) کے علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے، جہاں سابق صدر آصف زرداری بھی رہائش پذیر ہیں۔ یوں پیر (6 مارچ) کو ان کے ساتھ طویل (چار گھنٹوں) بیٹھک رہی۔
ہفتہ کا دن ہم نے اپنے بچوں کے ساتھ گزارا، شام کو اپنے چالیس برس پرانے دوست آغا پیر محمد سے ملاقات کی۔ پیر محمد نے صحافت کا آغاز پاکستان ٹیلی ویژن سے کیا۔ پھر ایک نجی ٹیلی ویژن کے ساتھ وابستہ ہوکر دبئی آگئے۔ جب اس چینل نے اپنا نشریاتی نظام کراچی منتقل کیا تو انھوں نے دبئی ہی میں رہنے کو ترجیح دی۔ آج کل SZABIST کے دبئی کیمپس میں ابلاغ عامہ پڑھا رہے ہیں۔ رات کا کھانا پیر محمد کے ساتھ کھانے کے بعد واپس ابوظہبی آگئے، کیونکہ اگلے روز پرویز مشرف سے ملاقات طے تھی، جس کا احوال شایع ہوچکا ہے۔
پیر کو کوشش کی کہ وہ غلطی سرزد نہ ہو، جو پرویز مشرف کے ساتھ ملاقات کے لیے جاتے ہوئے ہوئی تھی، اس لیے وقت سے ذرا پہلے ان کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ گئے۔ کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر عشرت بھی آگئے۔ ان کی گورنری کے دور میں درجنوں ملاقاتیں رہی تھیں، اس لیے خاصے بے تکلفی کے ماحول میں گفتگو ہوئی۔ ان سے پوچھا کہ اچانک ان کے کردار پر بمباری اور پھر ان کے استعفے کی پس پردہ کہانی کیا ہے۔ مسکرا کر بولے ایک طویل داستان ہے، جس میں کچھ Off the record باتیں بھی آئیں گی، جنھیں آپ خود سنسر کردیجیے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب کراچی میں آپریشن کا فیصلہ ہوا، تو ہم نے گھنٹوں اس کی منصوبہ بندی کی۔ چار سنگین جرائم یعنی دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کا خاتمہ اولین ترجیح تھا۔ اس کے لیے منصوبہ بندی کرلی گئی۔ فیصلہ کیا کہ جن سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز ہونے کے بارے میں سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی گئی ہے، ان کے انھی کارکنوں کو گرفت میں لایا جائے، جن پر سنگین جرائم میں ملوث ہونے کی خفیہ رپورٹس ہیں۔ لیکن یہ طے تھا کہ سیاسی جماعتوں کی قیادتوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا۔ مگر مجھے نہیں معلوم کہ اس پالیسی کو تبدیل کرکے آپریشن کو ایک ہی جماعت تک کیوں محدود کردیا گیا۔
پوچھا کہ پاک سرزمین پارٹی کے بننے اور پھر اس کے رہنما کی جانب سے ان پر الزامات کے پس پشت کیا کہانی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیوایم کے چند رہنماؤں پر بدعنوانیوں کے الزامات تھے۔ قائد تک بھی ان کی رپورٹس پہنچائی گئی تھیں۔ جنھوں نے ان کی رکنیت منسوخ کردی تھی، جو معافی تلافی کے بعد دوبارہ بحال کردی گئی۔ مگر لندن شکایت بھیجنے والے فرد کی 90 کے ایک کمرے میں بری طرح پٹائی ہوئی۔ جس کے بعد جماعت سے ان کی رکنیت ختم کردی گئی۔ کچھ بااثر حلقوں نے ان افراد کو ملک سے باہر بھجوادیا۔ یہ 2013ء میں انتخابات کے فوراً بعد کے واقعات ہیں۔پھر ان افراد کو واپس بلاکر انھیں ایم کیو ایم کے مدمقابل کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ڈاکٹر عشرت کا کہنا تھا کہ ان عناصر نے یہ تاثر دیا تھا کہ قائد ایم کیوایم کی صحت انتہائی خراب ہے اور کسی بھی وقت وہ اس دنیا سے رخصت ہوسکتے ہیں، لہٰذا وہ ایک متبادل جماعت تشکیل دے کر ایم کیو ایم کی جگہ لے سکتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ میں حکومتی حلقوں کو مسلسل متنبہ کرتا رہا تھا کہ یہ طریقہ کار نقصان دہ ثابت ہوگا، مگر میری تنبیہ پر کان نہیں دھرے گئے۔
دوسری طرف لندن میں میرے بارے میں یہ تاثر قائم ہوگیا کہ مجھے گورنری کا مزا لگ گیا ہے اور میں ایم کیوایم مخالف قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہوں۔ یوں میں چکی کے دو پاٹوں کے بیچ پس رہا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 21ہزار کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے، مگر 5 سو افراد پر بھی کسی سنگین جرم کی فرد جرم عائد نہیں ہوسکی، جس کا عوام میں منفی ردعمل پیدا ہوا۔
جو جماعت قائم ہوئی اور اس نے اپنی ابتدا اپنے ہی قائد پر رکیک حملوں سے کرکے فاش غلطی کی۔ کیونکہ اس طرح اس کے بارے میں عوام میں یہ تصور راسخ ہوگیا کہ اس کی تشکیل کے پس پشت پس پردہ کچھ قوتیں ہیں۔ اس تصور کو اس عمل سے بھی تقویت ملی کہ وہ کارکن جن پر سنگین جرائم کے الزامات تھے، جب نئی جماعت میں شامل ہوتے تو انھیں معافی مل جاتی۔ گویا ایک گلی کا کچرا دوسری گلی میں ڈال کر یہ سمجھ لیا گیا کہ معاملات بہتر ہو گئے ہیں۔
عشرت العباد کا کہنا تھا کہ اگر متعین شدہ سنگین جرائم پر توجہ مرکوز رکھی جاتی اور ہر جماعت کے مسلح ونگز کو یکساں طور پر گرفت میں لایا جاتا، تو آپریشن اس طرح متنازع نہیں بنتا، جیسا کہ اب ہوگیا ہے، بلکہ زیادہ مثبت اور دیرپا نتائج سامنے آتے۔ اس صورتحال میں صرف PSP کی قیادت ہی جھنجھلاہٹ کا شکار نہیں ہے، بلکہ منصوبہ ساز بھی پریشان ہیں کہ اربن سندھ کے لیے جو اہداف طے کیے تھے، وہ اب پورے ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ مگر منظرنامہ کا جائزہ لے کر حکمت عملیوں میں مناسب تبدیلی کے بجائے سابقہ روش پر ہی اصرار کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے بہتری کے امکانات مزید کم ہورہے ہیں۔
ہم نے انھیں بتایا کہ ہم پہلے روز ہی سے اس آپریشن کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ ہم پر ایم کیو ایم کی حمایت کا الزام لگادیا گیا۔ حالانکہ ہمارا موقف بالکل واضح ہے کہ کسی بھی قیمت پر ماورائے آئین اور قانون اقدام نہیں ہونا چاہیے۔ ہم اس بات پر پوری دیانتداری کے ساتھ یقین رکھتے ہیں کہ قانون نافذکرنے والے اداروں کو سنگین سے سنگین جرم کے مرتکب کسی بھی فرد پر اس وقت تک تشدد اور جان سے مارنے کا اختیار نہیں، جب تک کہ ملزم خود ان پر حملہ آور نہ ہو۔ لیکن ہمارے یہاں جرائم کی بیخ کنی کا ذریعہ ماورائے آئین و قانون اقدامات کو سمجھ لیا گیا ہے۔
زیر حراست ملزمان پر ایذارسانی کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن پر اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری دستخط کرچکے ہیں۔ اس پر قانون سازی ہونا باقی ہے، مگر اس کے باوجود ماورائے عدالت قتل اور ایذارسانی کا کلچر رائج ہے‘ یہ طرزعمل ریاستی حکمت عملی کے ٹھوس، پائیدار اور مثبت نتائج کے بجائے منفی اثرات مرتب کرنے کا باعث بنا ہے۔
ڈاکٹر عشرت العباد نے ہمارے موقف کی تائید کی اور تسلیم کیا کہ ان ساڑھے تین برسوں کے درمیان منصوبہ بندی اور حکمت عملی میں کئی اسقام تھے۔ جس کی وجہ سے طریقہ کار طے کرنے میں غلطیاں سرزد ہوئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک طرف مختلف کمیونٹیز کے درمیان خلیج میں اضافہ ہوا ہے اور مسلسل ہورہا ہے، جب کہ دوسری طرف کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے حکومتی اقدامات متنازع ہوئے ہیں، جو کچھ آج نظر آرہا ہے، وہ عارضی ہے اور کسی بھی وقت کوئی آتش فشاں پھٹ سکتا ہے۔ خاص طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا مقامی حکومتی نظام کے بارے میں معاندانہ رویہ اور اس نظام کو مفلوج رکھنے کی حکمت عملی سندھ میں امن و امان کے لیے زہر قاتل ہے۔ مگر اس جانب توجہ نہیں دی جارہی۔
ان سے پوچھا کہ خبریں گرم ہیں کہ انھیں پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے، تو اثبات میں سر ہلایا۔ مگر ساتھ ہی کہا کہ فی الوقت ان کا کسی جماعت میں شمولیت کا ارادہ نہیں ہے۔ وہ صورتحال کے ہر پہلو کا گہری نظر سے جائزہ لے رہے ہیں۔ آنے والے چند مہینوں کے دوران جب کسی نتیجے پر پہنچیں گے تو سندھ کے عوام کا بہتر مفاد مدنظر رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کریں گے۔ رات کا ڈیڑھ بج چکا تھا، اس لیے اجازت لی، کیونکہ اگلی صبح وطن واپسی تھی۔
بشکریہ ‘مقتدیٰ منصور‘