سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ہونے والے سانحہ حیدرآباد کو 30 ستمبر کو 32 سال کا عرصہ بیت گیا مگر متاثرین کو انصاف نہ مل سکا اور دو سال قبل اس کیس کو بند کر کے ملزمان کو شک کی بنیاد پر بری کردیا گیا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے کنونیئر خالد مقبول صدیقی نے 31ویں برسی کے موقع پر شہدا کے خاندانوں کو سلام تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’شہدا کی ثابت قدمی تحریک کا اثاثہ ہے جنہوں نے حوصلوں کو دوام بخشا، ہمارا یہ عہد ہے کہ شہیدوں، اسیروں کی قربانیوں کو کسی صورت رائیگا نہیں جانے دیا جائے گیا کیونکہ تحریک ان کی ہیامانت ہے جس میں خیانت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ حیدرآباد، لطیف آباد، پیر آباد، قلعہ چوک، گرونگر چوک، تلسی داس روڈ، گاڑی کھاتہ اور کالی موری سمیت مختلف ہونے والا قتل عام آج بھی ہماری نظروں کے سامنے ہے۔
ایم کیو ایم کے سابق کنونیئر اور تنظیم بچاؤ تحریک کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی تعزیتی پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے شہدا اور لواحقین کے لیے دعا کی۔
یاد رہے 30ستمبر 1988 کو حیدرآباد کے مختلف پرہجوم مقامات پر فائرنگ کر کے صرف 15منٹ میں 250 افراد قتل کو کر دیا گیا تھا پاکستان کی تاریخ میں اتنے کم عرصے میں اتنا بڑا قتل عام پہلے کبھی نہیں ہوا تھا جہاں ہر گلی اور چوراہا خون میں ڈوب گیا تھا۔
اسپتال ہلاک اور زخمی ہونے والوں سے بھرگئے اور شہر بھر میں ایمرجنسی قائم کردی گئی تھی یہ وہ وقت تھا جب سندھ میں لسانی بنیادوں پر سیاست عروج پر تھی اور کئی بار لسانی فسادات نے صوبے میں سر اٹھایا جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
سانحہ حیدرآباد میں مسلح موٹرسائیکل سواروں سڑکوں ، بازاروں اور گلیوں میں نہتے اور معصوم افراد کو گولیوں کا نشانہ بنایا عینی شاہدین نے ان ملزمان کی شناخت قوم پرست رہنما ڈاکٹر قادر مگسی اور ان کے ساتھیوں کے طور پر کی، عوامی دباؤ پران کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔