Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the wordpress-seo domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/zarayeco/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
"احفاظ ہمارے دلوں میں ہے" |

“احفاظ ہمارے دلوں میں ہے”

“احفاظ ہمارے دلوں میں ہے”

شہر قائد سے تعلق رکھنے والے مزاحمتی صحافی احفاظ الرحمان کی یاد میں آرٹس کونسل میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں اُن کے اہل خانہ سمیت دیگر عزیز و اقارب نے شرکت کی۔چھٹی کا دن ہونے کے باوجود پروگرام میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت اس بات کی غمازی تھی کہ احفاظ الرحمان کا نام اور اُن کا مزاحمتی نظریہ ہمارے معاشرے کا حصہ رہے گا۔

احفاظ الرحمان کو صحافتی شعبے میں مزاحمت کا استعارہ سمجھا جاتا ہے، انہوں نے بدترین آمریت میں بھی اپنا کام بنا خوف و خطر انجام دیا اور منہاج برنا کا بھرپور ساتھ دے کر اپنے عمل سے ثابت کیا کہ صحافی کبھی کسی دباؤ میں نہیں آتا۔

پروگرام میں احفاظ الرحمان کے صاحبزادے کا ویڈیو پیغام چلایا گیا جس کے بعد معروف افسانہ نگار اور نوجوان صحافی اقبال خورشید ڈائس پر آئے اور انہوں نے احفاظ الرحمان کی کچھ یادیں حاضرین کے سامنے پیش کیں۔

یاد رہے کہ اقبال خورشید کا شمار اُن خوش نصیب لوگوں میں ہوتا ہے جو احفاظ الرحمان سے آخری دنوں تک وابستہ رہے۔ افسانہ نگار نے جہاں احفاظ الرحمان کے سفر زندگی اور صحافتی تحریک کی جدوجہد پر روشنی ڈالیں وہیں کچھ تاریخی واقعات بھی سنائے۔

انہوں نے ایک کالم نگار کے آرٹیکل کا حوالے دیتے ہوئے واقعہ بیان کیا کہ ’منہاج برنا کو خیر پور جیل میں قید کیا ہوا تھا جہاں وہ بھوک ہڑتال پر تھے جبکہ کارکنان کو چلانے کے لیے احفاظ صاحب روپوش تھے، پولیس اور ادارے اُن کی گرفتاری کے لیے تابڑ توڑ چھاپے ماررہے تھے مگر احفاظ صاحب اُن کے ہاتھ نہیں آئے‘۔

’پولیس اہلکاروں نے کئی بار احفاظ صاحب کے گھر پر بھی چھاپہ مارا اور ہمیشہ گھر والوں سے ایک ہی بات پوچھی کہ احفاظ کہاں ہے، جبکہ اُن کے عزیز و اقارب کے گھر پہنچ کر بھی اہلکار احفاظ الرحمان کے حوالے سے سوال کرتے تھے‘۔

اقبال خورشید نے اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ ’اُس وقت چونکہ احفاظ صاحب روپوش تھے اور کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کہاں ہیں مگر آج ہم سے کوئی پوچھے گا تو ہم کہیں گے ’احفاظ ہمارے دلوں میں ہیں، احفاظ یہاں ہے‘۔

اقبال خورشید نے تقریر کے آخری الفاظ ادا کیے تو آڈٹیوریم تالیوں سے گونج اٹھا اور سب نے ہی نوجوان صحافی کو داد دی۔

پروگرام کی جھلکیاں

احفاظ صاحب کے دیرینہ ساتھی نجم صاحب نے ایک نظم پیش کی جبکہ نوجوان گلوکار نے احفاظ صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے گٹار پر فیض احمد فیض کی نظم ہم دیکھیں گے بھی پیش کی جس نے ایک علیحدہ سماع باندھ دیا تھا۔

احفاظ الرحمن بہت نڈر اور دلیر انسان تھے جس کام میں ہاتھ ڈالا اس میں کمال حاصل کیا، وہ بچوں پر زیادہ توجہ دیتے تھے کیونکہ اگر بچے ٹھیک ہوگئے تو نسلیں سدھر جائیں گی، ان خیالات کا اظہار معروف ادیب ،مفکر اور سماجی رہنما آئی اے رحمن نے آرٹس کونسل آف پاکستان کی جانب سے سینئر صحافی ، مصنف اور شاعر احفاظ الرحمن کی یاد میں منعقدہ تقریب سے کیا۔

انہوں نے کہاکہ آج کی لڑائی آج کے ہتھیار کا تقاضہ کرتی ہے ۔ہمیں اس پیغام کو عام کرنا ہوگا کہ ہم اگر سچ نہیں بول سکتے تو کم از کم جھوٹ بھی نہ بولیں۔صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہاکہ احفاظ الرحمن ایک رول ماڈل تھے، پوری زندگی حقوق کے لیے جدوجہد کرتے رہے، انہوں نے اپنی زندگی میں اتنی مشکلات اور تنگدستی کے باوجود کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہاکہ احفاظ الرحمن کی خواہش تھی کہ تمام لوگ اختلافات، نظریات اور جو بھی شکایتیں ہیں انہیں دور کرکے ایک قوت بن جائیں۔ آج وہ آپ لوگوں کی صورت میں یہاں موجود ہیں۔

آرٹس کونسل کراچی کے ساتھ ان کا بہت گہرا تعلق تھا وہ چاہتے تھے کہ یہ ادارہ ہمیشہ قائم و دائم رہے۔ ڈاکٹر سیّد جعفر احمد نے کہا کہ احفاظ الرحمن کے مضامین اور نظموں میں ایک ترقی پسند زاویہ نظر آتا ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ علم کے بغیر عمل اور عمل کے بغیر علم انسان کی کاوشوں کو رائیگاں کرتا ہے۔ ان کی حیات بخش کاوشوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

احفاظ الرحمان صحافت کا درخشندہ ستارہ : آمریت کے خلاف مزاحمت کا استعارہ

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے حسین نقی نے کہاکہ احفاظ الرحمن بہت سلجھے ہوئے اور پڑھے لکھے انسان تھے، آزادی صحافت اور کارکنان کے حقوق کے لیے 50کی دہائی میں صحافتی تنظیم بھی بنائی۔ ممتاز صحافی رہنما خورشید تنویرنے کہا کہ احفاظ الرحمن کی جتنی ضرورت آج ہے پاکستانی تاریخ میں ایسی کبھی نہ تھی، آزادیِ صحافت نہیں بچی یہ احفاظ الرحمان کا مشن تھا جس کیلئے انہوں نے ہمیشہ جدوجہد کی، ہمیں ان کے نظریے کیلئے مرتے دم تک جدوجہد کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ آج کا یہ اجتماع اس بات کا غماز ہے کہ احفاظ سے محبت کرنے والوں نے اُن کی محبت کو اپنے دلوں میں زندہ رکھا ہے۔ اس موقع پر طاہر نجمی نے کہاکہ وہ بیک وقت شاعر ، ادیب اور آزادی اظہار کیلئے جدوجہد کرنے والے صحافی تھے۔ انہوں نے زمانہ طالب علمی سے ہی اپنی تحریروں پر انعام حاصل کرنا شروع کردیے تھے۔ صحافیوں کی تحریک کا حصہ رہے اور نوجوانوں کی قیادت میں بھی حصّہ رہا ان کے قول و فعل میں تضاد تلاش کرنا مشکل کام ہے۔اقبال خورشیدنے کہاکہ احفاظ الرحمن اصول پسند انسان تھے انہوں نے ہمیشہ دھیمے اور شائستہ لہجے میں صرف سچ بولا۔

احفاظ الرحمن کی اہلیہ نے کہاکہ ایک ہرفن مولا کی بیوی ہونا کتنا بڑا چیلنج ہے ، وہ احفاظ کے ساتھ جن لوگوں نے کام کیا وہ اچھی طرح جانتے ہیں،آرٹس کونسل کی آخری دنوں میں احفاظ کے لیے جو اہمیت تھی وہ مجھ سے بہتر کوئی اور نہیں جان سکتا، میں آپ تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔اس موقع پر معروف شاعر منصور ساحر نے فاضل جمیلی کی نظم پڑھ کر سنائی جبکہ ڈاکٹر سید جعفر احمد نے احفاظ الرحمن کی تحریروں کے اقتباسات حاضرین کے گوش گزار کیے۔ تقریب میں احفاظ الرحمن کے صاحبزادے کا ریکارڈڈ پیغام بھی دکھایاگیا۔ معروف رقاصہ شیما کرمانی نے رقص پیش کیا۔