کراچی، چار ماہ کے ٹریفک حادثات میں خواتین اور بچوں سمیت 91 افراد کا قتل
کراچی میں ہونے والے رواں سال جون، جولائی، اگست اور ستمبر کے مہینوں میں ٹریفک حادثات کے نتیجے میں 91 افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ حادثات میں معجزانہ طور پر بچ جانے والے 21 افراد عارضی یا مستقل معذوری کا شکار ہوئے۔
گزشتہ ماہ ستمبر میں 31 افراد کو ڈمپر، واٹر ٹینکرز اور ٹرالرز کے ڈرائیور نے کچل دیا، حادثات کی بڑی وجہ دن کے وقت ہیوی ٹریفک کا چلنا ہے جس پر عدالت عالیہ نے بھی سختی سے پابندی عائد کی ہوئی ہے۔
شہر کی سڑکوں پر دوڑنے والی ہیوی ٹریفک نے سب سے زیادہ جانیں لیں، فیملی کے ساتھ موٹرسائیکل پرسفرشہریوں کی زندگی کے لیے رسک بن گیا، ٹریفک قوانین،روڈ سیفٹی کوبالائے طاق رکھنے والی ہیوی گاڑیوں کے ڈرائیوربے رحم ہوگئے، موٹرسائیکل پرسوارفیملیزاورانسانیت کے احترام سے عاری ڈرائیورز نے کمسن بچوں اورخواتین کوبھی نہ بخشا۔
ٹریفک حادثات میں دوبھائیوں سمیت کمسن بہن کوواٹرٹینکرکی طرف سے اخترکالونی پر کچلنے کا معاملہ سرفہرست ہے جبکہ اس سے قبل دادا، دادی اور پوتے کو ڈمپر ڈرائیور نے شہید ملت پر کچل دیا تھا، شاہ لطیف میں ماں بیٹے کو ٹرالر والے نے کچلا، شیرشاہ میں ٹرالے والے نے دو سگے بھائیوں کو ٹرک تلے روند کر ابدی نیند سلا دیا۔
سرجانی میں میاں بیوی کمسن بچی کو ڈمپرز نے کچل دیا، گلشن اقبال یونیورسٹی روڈ پر واقع بیت المکرم مسجد کے پاس نوجوان کوڈمپر نے کچل کرمار دیا۔
ان سارے حادثات کے بعد موٹر وہیکل آرڈیننس 1965، موٹر وہیکل آرڈیننس 1969 اور قومی وہیکل آرڈیننس 2000 پرعملدرآمد اور انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے روڈ سیفٹی پر ایکشن پلان نہ ہونا بھی ٹریفک پولیس سمیت متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔