پرائس کنٹرول کا نظام تباہ، اہل فکر طبقے نے بڑا مطالبہ کردیا

پرائس کنٹرول کا نظام تباہ، اہل فکر طبقے نے بڑا مطالبہ کردیا

May be an image of 1 person and standing

صوبہ سندھ میں کمشنری نظام کے تحت پرائس کنٹرول کا نظام مکمل طور پر زمیں بوس ہوگیا ہے جس کے بعد اہل فکر طبقے نے متبادل نظام کو رائج کرنے پر زور دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ نچلی سطح پر خدمات پہنچاتا بلدیاتی نظام ہی شہریوں کے مسائل کا مکمل حل ہے، بلدیاتی نظام میں بڑی ترامیم کی جائیں اور مختلف سہولتیں یوسیز کے ذریعے شہریوں کو فراہم کرنے کے فارمولے کو عملی جامہ پہنایا جائے۔

مسائل میں گھری عوام کراچی سمیت ملک میں دیگر مسائل کے ساتھ گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی اور رہزنی جیسے اہم مسائل کی روک تھام کے لئے اختیارات یوسیز کو منتقل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ جن کا خیال ہے کہ اس عمل سے مہنگائی اور جرائم کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں یہ نظام رائج ہے پاکستان میں بھی اس نظام کو رائج کر کے استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ پرائس کنٹرول کا اختیار یوسیز کو منتقل کیا جائے تو مہنگائی کے دم توڑنے کے مواقعوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، یوسی میں کام کرنے والے عملےکو ہر گلی، محلے میں موجود دکانوں کے بارے میں تفصیلی معلومات ہوتی ہیں کون کس نرخ میں کیا چیز بیچ رہا ہے ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ چونکہ یوسی کے منتخب بلدیاتی نمائندگان یا یوسی ملازمین کو اپنی یوسی کے متعلق مکمل معلومات ہوتی ہے اس لئے ان کی جانب سے پرائس کنٹرول میں رکھوانا مشکل کام نہیں ہے جبکہ کاروباری حضرات بھی ان سے گھبرائے رہیں گے کہ وہ کبھی بھی چھاپا مار کر ان کی دکان سیل کرسکتے ہیں اور اسی خوف کی وجہ سے قیمتیں کنٹرول کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔

دوسرا اہم کام کسی بھی جرائم چاہے وہ چھوٹی نوعیت کا ہو یا بڑی نوعیت کا یوسی کا عمل دخل اس میں اہمیت کا حامل ہونا چاہیئے، ایف آئی آر سمیت دیگر ابتدائی تحقیق میں یوسی کو انوسٹی گیشن میں شامل کر کے مفید نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، اگر کسی بھی یوسی میں کوئی جرم ہو اس کی ایف آئی آر بذریعہ یوسی درج ہونی چاہیئے، یوسی اس بات کی تصدیق کرے کہ جو جرم ہوا ہے اس کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے اس طرح ایکدوسرے پر بلاوجہ ایف آئی آر درج کروانے کا عمل تھم جائے گا۔

یونین کمیٹیوں اور یونین کونسلوں کو با اختیار بنا کر اس میں رہنے والوں کا یوسی میں اندراج ہونا چاہیئے، اگر کسی گھر میں مہمان بھی آئیں تو یوسی کو معلوم ہونا چاہیئے کہ کس گھر میں مہمان کہاں سے آئیں ہیں۔

کراچی جیسے میگا شہر میں جرائم کی اصل وجوہات یہ ہیں کہ یہاں گھر خرید لئے جاتے ہیں لیکن خریدنے والے کےبارے میں تفصیلات موجود نہیں ہوتیں مہمان آتے ہیں اندراج نہ ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد سکون سے قیام کر کے واپس چلے جاتے ہیں یا اپنا نیٹ ورک مضبوط کر لیتے ہیں جس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔

ایسے کئی معاملات ہیں جو مضبوط مقامی طرز حکومت کے گراس روٹ لیول یعنی یوسیز کے ذریعے حل ہوسکتے ہیں لیکن بگاڑ کو کنٹرول کرنے کیلئے عملی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری ادارے اپنا اصل کردار ادا نہیں کر پارہے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان بار بار گراس روٹ لیول پر خدمات پہنچاتے بلدیاتی نظام کی بات کرتے نظر آتے ہیں جو ان کا درست موقف بھی ہے لیکن اس کیلئے عملی اقدامات کرنے سے وہ تاحال گریزاں ہیں جس کی اہم وجہ یہ ہے کہ کچھ سیاستدان یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ خدمات گراس روٹ لیول تک پہنچیں کیونکہ انہیں مکمل یقین ہے کہ ایسا ہوا تو کئی کاروبار ازخود زمین بوس ہو جائیں گے۔

شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ملک میں اب تک وہ تبدیلی نہیں لائی جاسکی ہے جس کے سب پاکستانی منتظر ہیں ۔

تحریر : رضوان احمد (رضوان احمد سینئر صحافی ہیں جو بلدیات پر عبور رکھتے ہیں۔


نوٹ: آپ اپنی خبریں، پریس ریلیز ہمیں ای میل zaraye.news@gmail.com پر ارسال کرسکتے ہیں، علاوہ ازیں آپ ہمیں اپنی تحاریر / آرٹیکل اور بلاگز / تحاریر / کہانیاں اور مختصر کہانیاں بھی ای میل کرسکتے ہیں۔ آپ کی بھیجی گئی ای میل کو جگہ دی جائے گی۔