لاک ڈاؤن پر عمل درآمد، فوج میدان میں آگئی۔۔
مگر کیا فوج ہی مسائل کا حل ہے؟
کورونا وائرس کیخلاف جاری جنگ میں جہاں جانی نقصانات کا سامنا کرنا پررہا ہے وہاں عوام اور ریاست کا مالی نقصان بھی ہورہا ہے۔ کورونا نے پوری دنیا میں تباہی مچانے کے بعد آج کل آپنا سب سے بڑا شکار ہمارے پڑوسی ملک بھارت کو بنایا ہوا ہے جہاں لاشیں رکھنے، جلانے کی جگہ تک کم پڑ رہی ہے، دردناک ویڈیوز سے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے جہاں دیکھا جائے انسو اور سسکیاں نظر آتی ہیں، مریضوں کیلئے اسکیجن کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ سوشل میڈیا پر دنیا بھر اور خاص طور پر پاکستان میں بھی بھارت سے اظہار ہمدردی کے ٹرینڈس چلائے جارہے ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے بھارت کو 50 ایمبولینسس مفت فراہم کرنے کی پیشک بھی کررکھی ہے۔
مگر بھارت کو دیکھ کر ہم کیا سبق سیکھ رہے ہیں؟ کیا ہم وقت سے پہلے آپنے آپ کو تیار نہیں کرسکتے؟ روز پاکستان میں بھی ہزاروں کیسز رپورٹ تو ہو رہے ہیں، سینکروں جانوں کا نقصان ہورہا ہے، مگر عوام کو شاید اس بات کا احساس نہیں، یہ بات دیکھنے میں آرہی ہے کہ عوام پہلے کے مقابلے میں اب کورونا ایس او پیز پر بلکل بھی عمل درآمد نہیں کررہی۔ بازاروں میں رش دیکھ کر لگتا ہے کورونا کا وجود ہی باقی نہیں۔ دکانیں، مارکیٹس بند کروانے میں انتظامیہ ناکام نظر آنے لگی ہے۔ اس صورتحال میں وزیراعظم صاحب نے فوج سے مدد طلب کرلی، دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر ہنگامی صورتحال میں فوج کو ہی طلب کیا جاتا ہے۔ اب دکانیں بند کرونا، ماسک کا استعمال یقینی بنانا وغیرہ جیسے ایس او پیز پر عمل درآمد کیلئے انتظامیہ کے ساتھ فوج کی زمہ داری لگائی گئی۔
مگر کیا یہ عمل درست ہے؟ کیا فوج کا کام سڑکوں پر اتر کو عوام کو ڈندڈے کے زور سے ٹھیک کرنا ہے؟ یا پھر عوام میں دیگر طریقوں سے آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ فوجی اہلکاروں کو جنگ لڑنے کی ٹرینگ دی جاتی ہے نہ کے عوام سے نمٹنے کی یہ ہی وجہ ہے کے جب کہیں فوج کا عوام سے آمنے سامنا ہوتا ہے خونی شکل آختیار کرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ کل ۲۵اپریل کے ہی دن کوئٹہ میں دکانیں بند کروانے کے دوران اے سی سٹی کے گارڈز اور دکانداروں کے درمیان لڑائی جھگڑے کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں اہلکاروں کو دکانداروں پر فائرنگ کرتے دیکھا گیا۔ اس ہی طرح کے واقعات روز رپورٹ ہوتے ہیں جس میں ایس او پیز پر عمل درآمد کروانے کیلئے طاقت کا استعمال کیا جارہا ہوتا ہے۔
مگر عوام آخر کرے کیا ؟ لاک ڈاؤن اگر ہو تو بچے بھوکے اور نہ ہوتو کورونا کا ڈر۔ کوروانا سے عوام کو بچانے کا سب سے بہتر طریقہ ویکسین ہے، دنیا کے دیگر ممالک کورونا سے بچاؤ کی ویکیسن خرید کر اپنی عوام میں لگانے کیلئے دن رات ایک کیئے ہوئے ہیں جبکے پاکستان میں یہ عمل انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ سوشل میڈیا پر آج کسے نے لکھا
’’’’ جن ممالک کے پاس ویکسین تھی انہوں نے ویکسین لگالی۔۔۔ ہمارے پاس فوج تھی ہم نے فوج لگا لی‘‘‘
آخر ہنگامی بنیادوں پر ویکسینشن کے عمل میں تیزی کیوں نہیں لائی جارہی؟ اس سوال کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ حکومت اپنے مکمل وسائل کا استعمال کررہی ہے۔۔ اب تک پاکستان میں صرف 15 لاکھ افراد کو ویکسین لگائی گئی ہے جس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کے رفتار کتنی تیز ہے۔