بحریہ ٹاﺅن احتجاج میں اگر ہنگامہ نہ ہوتا تو۔۔۔ تحریر رضوان طاہر مبین
ذرا سوچیے اگر سات جون 2021ءکو ’بحریہ ٹاﺅن‘ کے خلاف مظاہرہ پُر امن طریقے سے جاری رہتا، تو کیا وجہ ہے کہ ’سوشل میڈیا‘ کے اس دور میں اُن پر ہونے والے ظلم پر رائے عامہ ہموار نہ ہوتی؟
شاید ہم بھی ا±س پُرامن مظاہرے اور دھرنے کے بعد آج ’بحریہ ٹاﺅن‘ کی زمین کے لیے بے دخل کیے جانے والوں کے لیے کچھ نہ کچھ لکھ اور بول رہے ہوتے، لیکن آپ غور کیجیے کہ کس طرح ان کا یہ سارا کیس خراب ہو گیا ہے۔ یا پھر اگر اس دھرنے کے منتظمین اس تشدد کی حمایت کر رہے ہیں، تو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر وہ کسی کے لیے استعمال ہوگئے ہیں۔
اس مظاہرے کے منتظمین سنجیدگی سے تمام عوامل کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کس طرح سے ان کی ساری جدوجہد رائیگاں ہو چکی ہے کہ صرف مظاہرے کی اصولی حمایت اور تائید کرنے والوں پر بھی لوگ ت±ھو ت±ھو کر رہے ہیں، اس لیے کہ اس مظاہرے پر تشدد کا رنگ غالب آچکا ہے جب کہ ہم سمیت ہر درد رکھنے والا ان کے مطالبے کی حمایت کرے گا، اگرچہ ہمیں یہ اعتراض ہے کہ یہ مظاہرہ ذمہ داران کے دَر پر ہونا چاہیے تھا، لیکن چلیے، وہاں بھی کیا تو اب اس ہنگامے کے بعد کیا حاصل کیا؟
دوسری طرف یہ ہمارے حفاظتی اداروں پر بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، کہ کیسے معاملے کے اس نہج پر پہنچنے کا اندازہ نہ کیا گیا؟ اور وہ بحریہ ٹاﺅن کے بہترین ’حفاظتی انتظام‘ کا کیا بنا، اگر انھیں پولیس اور رینجرز کی ضرورت تھی، تو کیا انھوں نے اس کی درخواست کی؟ اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس افسوس ناک واقعے سے کس بھرپور طریقے سے سندھ کی دونوں بڑی قوموں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ہمارے جو سیاسی حلقے طریقے اور سلیقے سے اپنی قوم کے حقوق لینے کے بہ جائے لسانیت کا زہر گھول کر اپنی سیاست زندہ رکھنا چاہتے ہیں، انھیں کیسے آکسیجن فراہم ہوگئی ہے! اب خدشہ ہے کہ لوگ 1980ءاور1990ءکے مختلف
خوں ریز واقعات کو یاد کرتے ہوئے ان نفرت کے عَلم برداروں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو جائیں گے! تو خود دیکھ لیجیے، ظالم کون تھا اور اب اس احتجاج کے بعد نقصان کس کو پہنچ رہا ہے اور فائدے کس کو مل رہے ہیں۔
یہ ہم سب جانتے ہیں کہ جب لوگوں پر جبر ہو، ان کے حقوق تلف کیے جا رہے ہوں یا وہ کسی بات پر ناراض ہوں تو پھر اس کی شکایت کرتے ہیں اور جدید دور میں اس کا مشترکہ اظہار احتجاجی مظاہرے کی شکل میں ہے، جس میں لوگ ایک جگہ جمع ہو کر بینر اور پلے کارڈ پر مطالبات لکھ کر، نعرے لگا کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، یوں لوگوں تک ان کی بات بھی پہنچتی ہے۔ مختلف اخبار نویس ان کا د±کھڑا اپنے اخبار، چینل اور ویب سائٹ کی زینت بناتے ہیں اور ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ (سوشل میڈیا) کے دور میں اسے کسی باقاعدہ ’ذرایع اِبلاغ‘ کی محتاجی بھی نہیں، بہت آسانی سے براہ راست اسے لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے، اس طرح ایک راہ نکلتی ہے کہ ذمہ داران کے کان پر جوں رینگے گی اور مسائل حل ہوں گے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ احتجاجی صدائیں لگانے والے بھڑک اٹھتے ہیں، چوں کہ وہ ستم زدہ اور بے بس ہوتے ہیں، اس لیے یہ خدشہ رہتا ہے کہ وہ کوئی اشتعال انگیزی نہ کر جائیں جس کی ایک شکل یہ ہوتی ہے کہ وہ سڑک پر ٹائر جلاتے ہیں، توڑ پھوڑ اور پتھراﺅ کرنے لگتے ہیں یا کبھی وہ سرکاری اور نجی املاک کو بھی نقصان پہنچا دیتے ہیں ہر چند کہ ان کی شنوائی نہیں ہو رہی تھی، لیکن اس صورت حال سے عام طور پر انھیں ہی نقصان ہی پہنچتا ہے۔ بہت سے احتجاج کرنے والے بھی احتجاج میں اس تشدد اور دنگے کے منفی اثرات سے واقف ہوتے ہیں، اس لیے وہ ہمیشہ اپنے مظاہرین کو نہ صرف اس سے باز رکھتے ہیں، بلکہ ان کی جانب سے ایسے عمل سے لاتعلقی کا اعلان بھی کرتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ ان کے مظاہرے میں ”کوئی اور“ شامل ہوگیا تھا، جس نے سارا فساد برپا کر کے ان کی پرامن جدوجہد کو سبوتاڑ کر دیا۔ یا پھر وہ واضح طور پر اس حوالے سے کوئی استدلال پیش کرتے ہیں کہ دراصل پولیس نے لاٹھی چارج کیا، آنسو گیس پھینکی یا مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا، جس سے مظاہرین مشتعل ہوئے اور توڑ پھوڑ یا جلاﺅ گھیراﺅ کے مرتکب ہوئے۔
ہر چند کہ پ±رتشدد ہونے والے مظاہرین یا احتجاج یا دھرنے میں شریک افراد ہی اکثر کسی نہ کسی سبب یا بلاسبب اس تشدد کے مرتکب ہوتے ہیں، لیکن اس میں ایک واضح امکان ’سازش‘ کا بھی ہوتا ہے، جسے بالکل بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ جیسے 1992ءمیں جب ہندوستان میں بابری مسجد شہید کی گئی، تو اس کے ردعمل میں یہاں شدید احتجاج ہوا اور مندروں کو نقصان پہنچانے کے واقعات پیش آئے۔ ایسے ایک مظاہرے میں شریک فرد نے ہمیں بتایا کہ وہ سب لوگ تو پُرامن احتجاج کر رہے تھے کہ اچانک اس ہجوم میں کسی نے ایسی آواز لگائی کہ ”مارو!!“ اور لوگوں کو مندر پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا ہجوم اس طرف ٹوٹ پڑا، کیوں کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ ہجوم کی نفسیات بالکل الگ ہوتی ہے۔ ’عمرانیات‘ میں باقاعدہ فرد کے انفرادی اور ہجوم میں کردار پر علاحدہ سے باب باندھے جاتے ہیں۔ ہجوم کو باقاعدہ منظم رکھنا منتظمین کے لیے بہت بڑا امتحان ہوتا ہے، بہ صورت دیگر ایسے واقعات کو راہ ملنا بہت آسان ہو جاتی ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ سات جون 2021ءکو ’بحریہ ٹاﺅن‘ کراچی میں پیش آیا، جس میں بحریہ ٹاﺅن کی جانب سے قدیم گوٹھوں پر قبضے کے خلاف ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا بحریہ ٹاﺅن کی جانب سے پہلے بھی اس طرح کی اطلاعات سامنے آچکی ہیں کہ اس ہاﺅسنگ سوسائٹی کے لیے ایسے ہی زور زبردستی کر کے زمین حاصل کی گئی ہے۔ اس لیے ان خبروں کے اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر ’بلیک آﺅٹ‘ ہونے کے باوجود، سبھی لوگوں کی ہمدردیاں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ تھیں، ظاہر ہے ایسے کسی کو گھروں سے بے دخل کر دینا نہایت شرم ناک عمل اور ایک سنگین جرم ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس مظاہرے کا اہتمام ’سندھ ایکشن کمیٹی‘ کی جانب سے کیا گیا، جس میں سندھ کی بہت سی قوم پرست جماعتیں بھی شامل ہوگئیں اور سندھ سے ایک بڑی تعداد مظاہرہ کرنے کے لیے ’بحریہ ٹاﺅن‘ کراچی پہنچی، اس موقع پر شہر کے ترقی پسند، لبرل، انسانی حقوق کے عَلم بردار اور سول سوسائٹی کے دیگر افراد نے بھی نہ صرف اس احتجاج کی حمایت کی بلکہ خود اس میں شرکت بھی کی۔
اب اسے آپ بدقسمتی کہیے یا کچھ اور کہ پھر یہ احتجاجی دھرنا پُرتشدد رنگ اختیار کر گیا اور دھرنے میں شریک افراد کی جانب سے بحریہ ٹاﺅن میں بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا اور نذرِ آتش کیا گیا۔ بحریہ ٹاﺅن کے مکینوں کے مطابق باقاعدہ لوٹ مار بھی کی گئی اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے اس واقعے کی خبریں، تصاویر اور ویڈیو منظر عام پر آگئیں اور سارے شہر میں ایک سراسیمگی سی پھیل گئی۔
کراچی شہر پہلے ہی سیاسی جبر اور گھٹن کا شکار ہے اور یوں سمجھیے کہ یہ نگر محرومی کے بارود پر بیٹھا ہوا ہے، ایسے میں اس واقعے کو ’سندھی مہاجر‘ تنازع کا رنگ ملنا اچنبھے کی بات نہ تھی کچھ حلقوں نے اِس کی روک تھام کے لیے اپنا کردار بھی ادا کیا، لیکن وہ لوگ جو اصولی اوراخلاقی طور پر بحریہ ٹاﺅن کی جانب سے غریب اور مفلوک الحال افراد کو بے گھر کرنے پر ہمدردی رکھتے تھے، وہ اب بے چینی سے یہ سوال کرتے ہوئے نظر آئے کہ وہاں جن کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، ان لوگوں کا کیا قصور تھا؟ اول تو یہ تشدد اور بلوا ہونا ہی نہیں چاہیے، لیکن پھر اگر آپ نے غصہ نکالا بھی تو ان لوگوں کی گاڑیاں اور دکانیں جلا کر، جنھوں نے بھاری قیمتوں کے عوض یہ جگہ اسی ’بحریہ ٹاﺅن‘ سے خریدی تھیِ، جس کے خلاف آپ صدائے احتجاج بلند کیے ہوئے ہیں۔ اب انھیں یہاں کی املاک سستے داموں بیچنے پڑے گی اور لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر انھیں سستے داموں خریدا جائے گا، تو اندازہ لگائیے کہ آپ نے کس کو فائدہ پہنچایا۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے بحریہ ٹاﺅن کے مکینوں میں اس دوران جو عدم تحفظ اور خوف کی فضا قائم ہوئی اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یعنی آپ کسی بھی طرح سے حساب لگا لیجیے اس ہنگامہ آرائی کا نقصان سو فی صد انھی متاثرین کو ہوا جن کے لیے یہ مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔
اب ’جوش‘ تھم گیا ہو تو ذرا جگر تھام کر ساری جمع تفریق کر لیجیے کہ یہ احتجاج پرامن ہوتا، تو یہ متاثرین کے حق میں اور قابضین وذمہ داران کے خلاف کس قدر موثر دباﺅ اور پریشانی کا باعث ہوتا تمام بڑے پاکستانی اخبارات اور خبری چینلوں میں ’بحریہ ٹاﺅن‘ کے شرم ناک ’بلیک آﺅٹ‘ کے باوجود ’سوشل میڈیا‘ کے توسط سے یہ صدا دب نہیں سکتی تھی لیکن ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے بعد متاثرین کے لیے بات کرنا دوبھر ہو گیا ہے، معاشرے کے بہت معقول لوگ بھی اب متاثرین کی بات کو پس پشت ڈال کر ہنگامے پر بات کر رہے ہیں۔
کوئی یہ بھی تو پوچھے کہ ریاست اور بحریہ ٹاﺅن کی انتظامیہ نے حفظ ماتقدم کے طور پر کچھ کیوں نہیں کیا؟ پھر کس طرح اس واقعے کے بعد سندھ میں ایک بار پھر ’لسانی سیاست‘ کے لیے موافق ماحول بنا دیا گیا ہے۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ سلیقے اور طریقے سے ہر قوم کو اپنے حقوق لینے کا حق ہے، لیکن اس کے لیے تو اب منہ سے آگ نکالی جا رہی ہے اور ’کوئی‘ پُھنکنی لیے بیٹھا اِس دو لسانی صوبے میں آتش کو ہوا دے رہا ہے آخر میں جو ہو رہا ہے اور جیسا ہو رہا ہے، ویسا ہی ہوتا رہے گا یعنی پرنالہ وہیں بہے گا
یہ سب باتیں راکٹ سائنس ہیں اور نہ ہی گڈے گڑیا کا کھیل، اس تماشے کو سمجھنے کے لیے فقط عقلِ سلیم ہونا ضروری ہے، لیکن صاحب، یہ عقل سلیم سب کے پاس ہو، یہ ضروری تو نہیں۔ (ختم شد)