ایک ہفتے میں توہین رسالت کا دوسرا الزام بھی غلط ثابت، بے گناہ خاتون کی رہائی کا حکم
’اس نے توہین کی‘ گارڈ نے اسلحہ اٹھایا اور بینک مینیجر پر فائر کھول دیے جس میں وہ بے گناہ مارا گیا، قاتل کو جلوس کی صورت میں لے جایا گیا، نبی کی چاہت میں نعروں کی صدائیں بلند ہوئیں، عدالت میں معلوم ہوا کہ گارڈ نے ذاتی رنجش پر مینجر کو قتل کیا۔
گلگت بلتستان کے ضلع غذر میں ایک خاتون پر دو برس قبل توہین رسالت کا الزام لگا، جس کے بعد ان کے خلاف 2019 میں مقدمہ درج ہوا اور پھر خاتون کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا، اب عدالت نے اُس خاتون کو بھی بے گناہ قرار دے دیا۔
دونوں مقدمات کی تفصیلات بالترتیب
خوشاب کیس
پنجاب کے شہر خوشاب میں توہین مذہب کا الزام لگا کر اپنے ہی بینک کے مینیجر کو قتل کرنے والے سکیورٹی گارڈ کو انسداد دشت گردی کی عدالت نے سزائے موت کا حکم دیا۔ قتل کا یہ واقعہ گزشتہ سال نومبر میں خوشاب کے علاقے قائدآباد میں پیش آیا تھا۔ مجرم احمد نواز نے محمد عمران حنیف پر اس وقت فائرنگ کردی تھی جب وہ صبح کے وقت بینک میں داخل ہو رہے تھے۔
یاد رہے کہ پولیس نے واقعہ کے فوراً بعد ملزم کو جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا تھا تاہم اسے قائد آباد تھانے منتقل کرنے کے دوران مقامی لوگوں کے ایک ہجوم نے اس کو گھیرے میں لے لیا تھا جو بعد ازاں جلوس کی شکل اختیار کر گیا تھا۔
ملزم کو تھانے منتقل کرنے کے بعد لوگوں کا ہجوم بھی بڑھا یہاں تک کے اس ہجوم میں سے بہت سے افراد تھانے کی چھت تک پہنچ گئے تھے۔
واقعے کے فوراً بعد مقتول محمد عمران حنیف کے اہل خانہ نے توہین رسالت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے ذاتی عناد قرار دیا تھا۔ قتل کے مقدمے میں مقتول کے چھوٹے بھائی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ان کے بھائی گذشتہ ایک سال سے اس بینک میں فرائض انجام دے رہے تھے۔
‘میں اکثر ان کو اپنی گاڑی پر بینک چھوڑنے کے لیے جاتا تھا، جس وجہ سے ملزم احمد نواز کو پہلے سے جانتا ہوں۔’
ایف آئی آر میں مقتول کے بھائی نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انھوں نے واقعے والے دن اپنے مقتول بھائی کو بینک کے باہر اتارا اور تھوڑی دیر میں فائرنگ کی آواز آئی۔ ‘جس پر میں اترا تو اس وقت دیکھا ملزم احمد نواز مقتول پر براہ راست فائرنگ کر رہا تھا۔’
گلگت بلتستان کیس جہاں ٹیچر پر الزام عائد کیا گیا
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے خاتون کے وکیل نے بتایا کہ اس الزام کے بعد اُن کا گھرانہ دربدر ہوا، خاتون کے وکیل اسلام الدین ایڈووکیٹ کے مطابق مقدمہ دو سال سے زائد عرصے تک چلتا رہا جس دوران استغاثہ نے خاتون کے خلاف 13 شہادتیں پیش کی تھیں۔ عدالت نے گواہوں کے بیانات اور وکلا کی بحث کے بعد اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ استغاثہ اپنے کیس کے حق میں کوئی بھی ٹھوس ثبوت مہیا نہیں کر سکا۔
اسلام الدین ایڈووکیٹ کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ استغاثہ نے تین عینی شاہد پیش کیے تھے جن میں سے دو نے عدالت میں دیے گئے بیان میں کہا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا تھا۔ جبکہ ایک گواہ کے بیان میں بہت زیادہ تضادات ہیں اور اس نے پولیس کے سامنے اور عدالت میں مختلف بیانات دیے ہیں۔ اسلام الدین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ مقدمہ درج ہونے سے پہلے خاتون ایک سکول میں پڑھا رہی تھیں۔ وہ دو کم عمر بچوں کی ماں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ مقدمہ درج ہونے کے فوراً بعد ان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
خاتون ٹیچر نے ڈھائی سال کا عرصہ جیل میں گزارا ہے۔ اس دوران وہ اپنے بچوں سے بھی نہیں مل پائیں کیوں کہ ان کے شوہر بچوں کو لے کر ان کے تحفظ اور تعلیم کے لیے کسی دوسرے جگہ منتقل ہوگئے تھے۔
اسلام الدین ایڈووکیٹ کے مطابق اب خاتون بھی رہائی کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل ہو چکی ہیں۔ وکیل کے مطابق ان کی نفسیاتی اور جسمانی حالت ٹھیک نہیں ہے اور وہ بہت زیادہ خوف کا شکار ہیں۔
یاد رہے کہ خاتون ٹیچر کے خلاف مقدمے اور گرفتاری پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔