یقین ہے مجھ کو منزل کہو رہے ہو … تحریر سید محبوب احمد چشتی
شہر قائد کی سیاست غیریقینی صورتحال کا شکار ہورہی ہےمہاجروں کی قربانیوں کاذکرخیرکرنےوالے مہاجر رہنماؤں نےمہاجروں نےمہاجروں کی قربانیوں کونظراندازکردیاہےباتیں کرنےوالی عوامی مسائل کے حل میں ایم کیوایم پاکستان سمیت تمام مہاجراسٹیک ہولڈر ہونے کا دعوےدار گروپس فوٹوسیشن تک محدود ہوگئے ہیں بیانات ریلیاں جلسے میٹنگزوغیرہ وغیرہ مختلف ٹکروں میں بٹے ہوئے نظریات کسی افسانہ نگاری کانقشہ پیش کررہےہیں۔
شہرقائد کی وہ تمام سیاسی جماعتیں اور گروپس جو مہاجر اسٹیک ہولڈر ہونے کی دعوے دار ہیں وہ اس قدر مجبور لاچارویژن سےعاری سیاست کررہی ہیں کہ اس بات کا ندازہ اس بات سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک پلیٹ فارم پرمتحد بھی نہیں ہوسکتے ہررہنما اپنی جگہ شیربنا ہوا ہے تقاریر و بیانات کا نہ ختم ہونے والا یہ سلسلہ اپنا مذاق خود بنوارہا ہے۔
ایم کیوایم پاکستان تنظیم بحالی ڈاکٹر فاروق ستار ،مہاجرقومی موومنٹ، پی ایس پی، مہاجراتحاد تحریک شمون ابرار،احسن قریشی ،اور نہ جانے کون کون ہیں ان تمام گروپس وشخصیات کے ساتھ مجبوری ولاچاری خوف کے شکار کارکنان وہمدردوں وسرکاری ملازمین کا ایک ہجوم ہے جس کو یہ سب پیارے مہاجرسوچ رکھنے والی شخصیات قوم کہتے ہیں برسوں پہلے کے جو نظریات تھے یا تووہ خوف کا شکار ہوگئے یا پھران نظریات کو برائے فروخت کرکے اپنے لیئے آسائشیں خرید لیں گئیں۔
سب سے مزاحیہ بات یہ ہےکہ ہرشخصیت مہاجروں کا درد بھی رکھتی ہےاورمہاجروں کو ذہنی اذیت دینے کا مواقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتی یعنی یہ سوچ ایک ہونے نہیں دیتی بیانات وتقاریر سےایسا لگتا ہےکہ کل صوبہ بن گیا اب صوبہ بن گیا مہاجروں سمیت مظلوم قومیتوں کی شان میں زمین وآسمان کے قلابےتو ملاتےہیں لیکن قلب نہیں ملاتے،شیطانی طرزفکر کی عکاسی کرتی یہ سیاست کس طرح سے شیطان کو خوش کررہی ہیں اسکا اندازہ ان وقتی وحادثاتی بننے والے تمام مہاجرقائدین واکابرین کی طرزسیاست سے باخوبی لگایا جاسکتا ہےکیونکہ اللہ کا حکم ہے کہ مجھے وہ پسند ہیں جو جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں چاروں طرف باتوں وبیانات کی بہار آتی ہے لیکن بات جب مل کربیٹھنے کی ہو تو نہ جانے کس جانب سے سخت آواز بھی آتی ہے۔
یہ تمام کا تمام رہنماؤں کاہجوم مہاجروں کی بقا اور وسیع تر مفاد میں اپنے کاروباراور اثاثوں میں مسلسل اضافے کی ترکیبیں چھوڑکر کچھ سالوں کے لیئےاپنی قوم کے لیئے نظریاتی بھی بن جائےتوباقی معاملات نظریاتی سنبھال لیں گے پورے شہری سندھ میں لاقانونیت ، اقربا پروری سمیت ہرناانصافی نے مہاجروں کو ذہنی اذیت کا شکار بنادیا ہے پوری دنیا میں کراچی کی پہچان ایک گندے سیوریج کچرے ذدہ ماحولیاتی آلودگی والےشہرکی بنتی جارہی ہے میرٹ کا قتل عام سے لیکرغیرمقامی افراد کی بھرمار نے اس شہرقائد کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے مہنگائی لوڈشیڈنگ سے لیکرہراذیت دیتا ہوا عمل اس شہرکے لوگوں کا مقدر بنادیا گیا ہےلیکن سلام ہے مہاجروں ان اسٹیک ہولڈر ز کے ہجوم کی جو منتشر منقسم نظریات کے ساتھ سیاست بھی کررہے ہیں۔
جوشخصیت جوڑنے کی بات کرتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ گناہ کی بات کرتی ہے کچھ عرصے پہلے وائس آف کراچی نے تمام اہم مہاجر اسٹیک ہولڈر ز کے ایک پلیٹ فارم پرجمع ہونے کی بات کی تھی ایسا لگا کہ گویا کوئی طوفان آگیا کہ کیوں جوڑنے کی بات کی جارہی ہے جبتک اصل نظریاتی قیادت سامنے نہیں آتی اوراس میں کچھ وقت لگ بھی رہا ہے توفی الحال تو ایک ہوجاؤ باقی سب نتائج اللہ پر چھوڑ دیں ہم سب منتشر منقسم ڈیرحھ انچ کی جگہ بناکر مہاجروں کی بات کرتے ہیں اس بات پر ہم مہاجر قوم سے منافقت کرتے ہیں الزامات اور انا کے خول میں بند سیاست کا باب اب بند ہونا چاہیئے ایک مہاجر نے اپنی فیس بک پر حبیب جالب کا یہ شعر پوسٹ کیا ہوا تھا اس شعر پر میں اختتام کرنا چاہتاہوں کہ
گماں تمکوکہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین ہے مجھکو کہ منزل کھورہے ہو