شہدائے اردو کی داستانیں تحریر: سید محبوب احمدچشتی
شہدائے اردو کی داستانیں آج بھی ذہنوں پر نقش ہیں لسانی فسادات کی یہ داستان محض لسانی نہیں تھی بلکہ اس میں قومی زبان کو پس پشت لیجانے کا عنصر نمایاں تھا، 9 جولائی 1972ء کو کراچی میں ہونے والے لسانی فسادات مخصوص سازش تھی جس کی آڑ لے کر قومی زبان کےتقدس کوپامال کرنےکےلیئے صوبہ سندھ میں سندھی زبان کو سرکاری زبان بنانے کیخلاف فسادات پھوٹ پڑے تھے اسوقت کے وزیراعلیٰ سندھ ممتاز علی بھٹو نےتعصبی طرزفکرکامظاہرہ کرتےہوئے سندھ اسمبلی میں سندھی کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دئیے جانے کا بل کثرت رائے سے منظور کروایا۔
جس سے اردو بولنے والے بے چینی کا شکار کیا گیا، ضلع وسطی کےمشہور علاقے لیاقت آباد المعروف لالو کھیت اس حوالے سے میدان جنگ بن گیا تھا جہاں بے ہیمانہ طریقے سے مار دھاڑ کی گئی لیاقت آباد دس نمبر پر واقع مسجد شہداء ان ہی فسادات کی یادگار کے طور پر آج بھی موجود ہے اس مسجد کے احاطے میں اب سے 49 سال قبل اپنی لسانی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پولیس کو استعمال کر کے اندھا دھند فائرنگ کی گئی مسجد شہداء کے احاطے میں شہدائے اردو کی قبریں موجود ہیں جسے دیوار لگا کر مسجد سے علیٰحدہ کر دیا گیا ہے اس واقعے نے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ جو لسانی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کا گڑھ سمجھا جانے والا شہرقائد نفرتوں کے ایک ناختم ہونے والی عفریت کا شکار ہوگیا اور آج پھر اس شعلے کو زبردست طریقے سے آگ بنانے کیلئے کردار ادا کیا جارہا ہے جس سے نمٹنے کیلئے ہر لسانی اکائی کو باہمی اتحاد کے ذریعے ناکام بنانا ہوگا بصورت دیگر خدانخواستہ معاملات اسی نہج پر جارہے ہیں جو 1972ء یا انیس سو 88ء اور اس کے بعد کے سالوں میں پچیس سال سے زائد عرصے تک اردو بولنے والے بھگتتے رہے اور تاحال تنہائی کا شکار ہیں۔
اس شعلے کو بھڑکانے سے روکنے کیلئے ہر لسانی بالخصوص سندھی اور اردو بولنے والے دانشوروں کو سامنے آنا پڑے گا کیونکہ یہ آگ کسی کے بھی حق میں نہیں ہے اس کا فائدہ معصوم اردو اور سندھی بولنے والوں کے بجائے ہمیشہ مفاد پرستانہ سوچ رکھنے والوں کو ملا ہے،ہر سال نو جولائی کا خونریز واقعہ اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ ہم لسانی اکائیوں میں بٹنے کے بجائے پاکستان کی سالمیت کی علامت بنیں بلاشبہ اس حقیت سےانکارممکن نہیں ہےکہ ہمارایہ وطن اپنےاصل محبت مانگ رہاہےلفاظیاں کرنےوالےمحب وطن توبہت ہیں۔
پاکستان میں بولی جانے والی ساری زبانیں قابل احترام اور ہماری شان ہیں لیکن قومی زبان اردو کو لسانی بنیاد پر دیکھنے کے بجائے اس طرح دیکھنا چاہیئے کہ ہر ملک کی شان اس کی زبان ہوتی ہے اس کی قدر ہمیں خود بھی کرنی ہے اور دوسروں سے بھی کروانی ہے اسوقت بھی کچھ ناعاقبت اندیش سیاستدان مفادپرست اس کوشش میں مصروف ہیں کہ کسی طرح اس شعلے کو ہوا دیکر آگ لگا کر معصوم جانوں سے کھیلا جائے سندھی اور اردو بولنے والے دانشوروں سمجھداری سےکام لیتےہوئےاس لسانی سوچوں پرمحبت کارنگ بھرناہوگا اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے کے خالق رئیس امروہی بھی اس وفد میں شامل تھے جس نے ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کرکے انہیں دلائل سے یہ ثابت کیا کہ باہمی تفریق سے بہتر ہے کہ ایک نقطعے پر یکجا ہوا جائے جسے وفد میں موجود تمام دانشوروں نے سراہا اور اس بات کو درست قرار دیاتھا۔