عالم ارواح میں ایک دن ڈاکٹر عمران فاروق کے ساتھ

عالم ارواح میں ایک دن ڈاکٹر عمران فاروق کے ساتھ۔۔۔ تحریر عمیر علی انجم

ہم جب عالم ارواح میں پہنچے تو موسم انتہائی سرد تھا۔ ماحول میں ایک عجیب اداسی بھری تھی۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ کہیں نزدیک ہی ناصر کاظمی موجود ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ

دل تو اپنا اداس ہے ناصر

شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

ہماری منزل ڈاکٹر عمران فاروق کی قیام گاہ تھی۔۔ہمیں بتایا گیا کہ وہ شہداکالونی میں رہائش پذیر ہیں اور اپنا زیادہ تر وقت تحریک کے شہید کارکنوں کے ساتھ ہی گذارتے ہیں۔۔ کچھ ہی لمحے بعد ہم ڈاکٹر صاحب کے روبرو تھے۔۔ وہ راوایتی کرتے پاجامے میں ملبوس تھے۔۔ دھان پان سے ڈاکٹر عمران فاروق کو دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ کمزور سا شخص عالم نوجوانی میں ایک ایسی تحریک کے بانیوں میں شامل تھا جو آگے چل کرملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن گئی تھی۔۔۔

روایتی کلمات کے بعد ہم نے ڈاکٹر صاحب سے گفتگو کا آغاز کیا اور ان سے روز مرہ کے معمولات دریافت کیے ۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہاں کے معمولات میں یکسانیت ہے۔۔۔۔ یہاں شہدا کالونی میں شہید ساتھیوں کے ساتھ وقت گذر جاتا ہے۔۔۔ ہم سب کے درد مشترک ہیں۔۔۔۔کبھی فکری رہنمائی کی ضرورت ہو تو رئیس امروہوی اور اختر رضوی صاحب کے پاس جاکر بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔۔

ہم نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ آپ کی قوم اس وقت مایوسی کا کیوں شکار ہے ؟

ڈاکٹر صاحب نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا کہ اصل میں مجھے ایک شعر یاد آرہا ہے کہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

کچھ ایسی ہی صورتحال ہماری قوم کی بھی ہے۔۔۔۔اس مہاجر قوم کی طاقت ایم کیو ایم تھی اور وہ ایم کیو ایم جو سیاسی جماعت نہیں ایک تحریک تھی۔۔۔ جس دن اس تحریک نے روایتی سیاسی جماعت کی شکل اختیار کرنا شروع کی تھی اسی دن سے ہمارے زوال کا آغاز ہوگیا تھا۔۔۔ ہم اس وقت مضبوط تھے جب ہمارے سروں کی قیمتیں مقرر تھیں اور ہمارے لیے روپوشی کاٹنے کے لیے جگہ نہیں ہوتی تھی۔۔ ہم کمزور اس وقت ہوئے جب ہمارے رہنما لگژری گاڑیوں اور بینک بیلنس کے چکر میں پڑے اور کارکنوں کو نوکریوں کا حصول اپنی منزل لگنے لگا۔۔۔۔اور رہی سہی کسر ہماری قیادت نے پوری کردی تو آج جو کچھ ہورہا ہے وہ کوئی انہونی نہیں ہے یہ تو 2002 سے دیواروں پر لکھا ہوا نظر آنے لگا تھا۔۔۔

یہ حالات دیکھ کر آپ خود کتنے مایوس ہیں ؟

ہمارے اس سوال پر ڈاکٹر صاحب نے ایک بڑی خوبصورت بات کہی ۔۔۔کہنے لگے کہ پیدائش کا دن وہ واحد دن ہوتا ہے جب ماں اپنے بچے کے رونے پر مسکراتی ہے اور اس کے بعد وہ تمام زندگی اس کے رونے پر صرف تکلیف میں رہتی ہے۔۔۔ ایم کیو ایم بھی ہمارے لیے اولاد کی طرح ہے۔۔۔۔ جب اس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تو ہم سب کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے اور آج جب یہ تکلیف میں ہے تو ہم بھی کرب سے گذر رہے ہیں۔۔۔جہاں تک مایوس ہونے کی بات ہے تو شہدا کا خون ہمیں مایوس نہیں ہونے دیتا ہے ۔۔۔ہم منزل سے بھٹک ضرور گئے ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ کچھ فیصلے ہمیں دوبارہ منزل کی طرف لے جاسکتے ہیں۔۔۔

اسی اثنا میں کھانے کا وقت ہوگیا۔۔ ڈاکٹر صاحب نے ہماری تواضح بہاری کباب اور پراٹھوں سے کی ساتھ میں انڈے کا حلوہ بھی موجود تھا۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب خود کم کھارہے تھے ہمیں زیادہ کھلارہے تھے۔۔۔۔

کھانے سے فراغت کے بعد گفتگو کا سلسلہ دوبارہ جڑا تو ہم نے ان سے پوچھا کہ ابھی آپ نے کہا کہ آپ مایوس نہیں ہیں ۔۔۔۔آپ کی نظر میں تحریک کو دوبارہ منزل کا راستہ کس طرح دکھایا جاسکتا ہے ؟

ہمارے اس سوال پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہاں صرف نیک نیتی کی ضرورت ہے۔۔۔کچھ لوگوں کو اپنی انا قربان کرنا پڑے گی اور سب سے بڑھ کر لندن میں بیٹھے شخص کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ قوم کی بقا کے لیے سب سے اہم کردار اس کا ہے۔۔۔وہ بلاشبہ اس تحریک کا قائد ہے لیکن اس کی غلطیوں کی سزا قوم نے اپنی استطاعت سے زیادہ برداشت کرلی ہے۔۔۔۔ میں خود لندن میں رہا ہوں مجھے علم ہے کہ وہاں کے معاملات بہت پراسرار تھے۔۔۔۔ مجھ پر قتل ،اغوا اور نجانے کتنے الزامات تھے لیکن خدانخواستہ کبھی غداری کا الزام نہیں لگا ۔۔۔۔ لندن میں جن حالات میں مجھے شہید کیا گیا وہ سب جانتے ہیں۔۔۔۔ آج میری بیوی بچے جن حالات میں زندگی گذار رہے ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن میں اپنے ذاتی معاملات کے حوالے سے کسی سے شکایت نہیں کرنا چاہتا میں بس یہ چاہتا ہوں کہ میری قوم کی تقدیر بدلے۔۔۔

ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ رئیس امروہوی اور اختر رضوی بھی ملاقات کے لیے چلے آئے ۔۔۔ڈاکٹر صاحب نے ہمارا تعارف کرایا تو وہ ہمیں غائبانہ طور جانتے تھے۔۔۔ ان دونوں حضرات کے آنے کے بعد ان کے خطوط کا ذکر نکل آیا جو انہوں نے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور آفاق احمد کو لکھے تھے۔۔۔ابھی ہم اس ضمن میں بات چیت کو آگے بڑھانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ایسا ہی ایک خط عظیم احمد طارق بھائی نے لکھا تھا کیوں نا ان کے گھر چلا جائے۔۔۔۔ عظیم احمد طارق بھی شہید کالونی میں رہائش پذیر ہیں۔۔۔انہوں نے پرتپاک انداز میں ہمارا استقبال کیا ۔۔۔۔فوراؐ ہی گرما گرم چائے بھی آگئی۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ہم سب اس وقت متفق ہیں کہ یہ مہاجر قوم کے لیے “اب نہیں تو کبھی نہیں” کا وقت ہے۔۔۔ میں ان تمام حضرات کے خطوط سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ ۔۔۔رئیس بھائی نے بالکل درست کہا ہے کہ اس وقت امید کی واحد کرن ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ہیں ۔۔۔ اس وقت وہ ایم کیو ایم کی نظریاتی اساس کے واحد وارث ہیں۔۔۔چاہے ڈاکٹر فاروق ستار ہوں یا آفاق احمد، مصطفی کمال ہوں یا ڈاکٹر سلیم حیدر ان سب کو اپنے مرکز پر واپس آنا ہوگا اور سب سے بڑھ کرلندن میں موجود شخص کو اپنی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنا ہوگا اور یہ کفارہ اسی طرح ادا ہوسکتا ہے کہ وہ خاموشی اختیار کرتے ہوئے قوم کا ہاتھ کسی ایک کے ہاتھ میں دیدے اور میری نظر میں وہ مضبوط ہاتھ صرف ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا ہے۔۔۔۔

میں نے ایک نظر رئیس امروہوی، اختر رضوی اور عظیم احمد طارق کی جانب دیکھا تو انہوں اثبات میں سرہلاتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب درست کہہ رہے ہیں۔۔۔۔یہ کفارہ ادا کرنے کا وقت ہے۔۔۔۔یہ غلطیوں کے ازالے کا وقت ہے۔۔۔۔ لندن پاکستان کی امانت پاکستان کو سونپے اور خود مغرب میں ہی غروب ہوجائے کیونکہ اس کے غروب ہونے سے ہی مہاجر قوم دوبارہ طلوع ہوسکتی ہے۔۔۔

عالم ارواح میں بھی سورج غروب ہوچکا تھا۔۔۔مجھے واپس جانا تھا۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب مجھے چھوڑنے آئے تو میں نے کہا کہ کسی کو کوئی پیغام دینا ہے تو میں حاضر ہوں۔۔۔

ڈاکٹر صاحب نے میرے کاندھے ہر ہاتھ رکھ کر کہا کہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو کہنا ہے کہ وقت نے تمہیں قوم کا بڑا بنادیا ہے۔۔۔۔تم ہم سب کا مان ہو۔۔۔ یہ مان ٹوٹنے نا دینا۔۔۔۔تم کھڑے رہے تو ایک دن یہ قوم بھی کھڑی ہوجائے گی۔۔۔۔اسے کہنا کہ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ہم ایم کیو ایم کی بنیاد رکھنے والے تمہیں اپنا جانشین نامزد کرتے ہیں۔۔۔۔ہم نے اپنا فرض ہورا کیا۔۔۔اب تم اپنا حق ادا کرو۔۔۔۔۔