کراچی آپریشن، چوہدری نثار کے انکشافات،ہزاروں متاثرین کے غم کا مداوا کیونکر ہو۔۔ تحریر جبران حسین
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیمان کا پشیمان ہونا
چودھری نثار خان کی پرانے انکشافات پر مہر ثبت،ہزاروں شہادتیں، لاکھوں مقدمات کا مداوا کیونکر ہوگا
1988، 1990 کے انتخابات میں فقیدالمثال کامیابی حاصل کر کے ابھی ایم کیو ایم نے پاوں بھی نہیں جمائے تھے کہ صرف چار سال کے عرصے میں ہی ایم کیو ایم کی طرز سیاست سے خوفزدہ اشرافیہ اور موروثی سیاست کے کرتا دھرتا سب ایک پیج پر جمع ہوئے اور جھوٹی تحقیقاتی رپورٹس، من گھڑت کہانیاں گھڑ کر ریاستی اداروں کو گمراہ کیا اور ایم کیو ایم پر فوجی آپریشن مسلط کر دیا،
اس فوجی آپریشن کی کہانی بھی بہت عجب تھی، 19 جون کو آپریشن شروع ہوا، دو دن قبل ایم کیو ایم کے نمائندے اس اعلی سطحی میٹنگ میں موجود تھے جہاں وزیر اعظم پاکستان سمیت اعلی فوجی حکام کی موجودگی میں اس آپریشن کی مکمل بریفنگ دیے کر باقاعدہ منظوری لی گئی، اور میٹنگ کے بعد ایم کیو ایم کے نمائندے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے اور آگلے دن ان ہی کے خلاف آپریشن شروع کر دیا گیا، جو صوبے و مرکز میں حکومتوں کا حصہ تھے اور اس آپریشن کی منظور دینے والوں شامل تھے۔۔۔۔ یہ سب اتنا اچانک اور غیر متوقع تھا کہ کسی کے خواب و خیال میں نہیں تھا کہ اندرون سندھ میں ڈاکوں اور پتھاریداروں کے خلاف پلان کیا گیا آپریشن کا رخ ایم کیو ایم کی طرف کیوں موڑ دیا گیا۔
یہ فوجی آپریشن ایم کیو ایم کے خلاف اتنی شدت سے شروع کیا گیا کہ جو اصل ٹارگٹ ڈاکوں اور پتھیاریدار تھے وہ اس آپریشن کی گہن گرج میں کہیں چھپ گئے۔۔۔۔۔۔۔ ریاستی اداروں کی جانب سے اس آپریشن کی جو وجوہات بتائی گئی ان میں سب سے سنگین الزام ایم کیو ایم پر لگایا گیا وہ پاکستان توڑنے کا یعنی “جناح پور” کے قیام کے لیے انڈین را اور بھارتی حکومت سے ساز باز کرنا اور ملک سے غداری کرنا شامل تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “جناح پور” کا بھونڈا الزام لگانے والے اس وقت منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے جب پاک فوج کی طرف سے ایک انکوائری رپورٹ منظر عام پر آئی کہ فوج کو “جناح پور” سازش کے کوئی ثبوت نہیں ملے تو دو تین ماہ سے چلنے والے آپریشن کا جواز پیدا کرنے کے لیے بعد ازاں ٹارچر سیل، بھتہ خوری، مخالفین کو قتل کرنے اور غندا گردی جیسے الزامات عائد کئے گئے، اسی طرح “میجر کلیم”، کیس بھی برسوں بعد غلط ثابت ہوکر داخل دفتر ہوا۔
دو دن قبل 1992 میں وزیر داخلہ رہنے والے چودھری نثار خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں ایم کیو ایم پر لگائے گئے الزامات کی آڑ میں کئے جانے والے آپریشن کی حقیقت خو بیان کی، انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ 1992 میں کیا جانے والا کراچی آپریشن کی منصوبہ بندی دراصل سندھ کی 72 بڑی مچھلیوں کے خلاف کی گئی تھی اور اچانک اس کا رخ ایم کیو ایم کی طرف موڑ دیا گیا، جو بقول چوھدری نثار خان کے میرے لیے بھی تحجب خیز تھا، اور میں نے اسی وقت اعتراض بھی کیا تھا، اور بعد میں میری باتیں سچ ثابت ہوئی کہ ایم کیو ایم اس معاملے میں بے قصور تھی۔
چودھری نثار خان پہلے وزیر داخلہ نہیں جنھوں نے کراچی آپریشن پر سوالیہ نشان لگایا ہے، اس سے قبل ایک اور وزیر داخلہ چودھری شجاعت حسین بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں تسلیم کر چکے ہیں کہ ایم کیو ایم کے ساتھ ہم نے زیادتیاں کی تھی، ایم کیو ایم کے کارکنان کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا اور بقول چودھری شجاعت کہ میں خود گواہ ہوں کہ ایم کیو ایم کے کارکنان کی لاشوں کو مارگلہ کی پہاڑیوں میں دفن کیا گیا، اس انٹرویو میں چودھری شجاعت نے جناح پور سازش اور میجر کلیم کیس کے الزامات کو بھی غلط قرار دیا تھا، اس کے ساتھ ایم کیو ایم پر لگائے گئے الزامات کو پروپیگنڈے اور سندھ پولیس کی مرکز کو بھیجی جانے والی جھوٹی رپورٹس کا نتیجہ بتایا۔
ایک اور وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کے تذکرے کے بغیر اس کہانی کی کڑیاں مکمل نہیں ہوتی ہے، پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے پیپلز پارٹی کے زیر کنٹرول متعصب پولیس کی بے بنیاد جھوٹی رپورٹس کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے ایم کیو ایم کے کارکنان پر وہ ظلم کے پہاڑ توڑے کہ زمین بھی کانپ جاتی تھی، چودھری شجاعت نے ایم کیو ایم کے کارکنان کے ماورائے عدالت قتل اور لاشوں کو مارگلہ کی پہاڑیوں میں دفن کرنے کا براہ راست الزام اسی پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر پر لگایا تھا، وہ نصیر اللہ بابر جو اپنے وقت پر ہاتھ میں چھڑی لہراتے ہوئے وقت کا فرعون بنا ہوا تھا، جس نے چنگیزی مظالم کی تاریخ رقم کی، وہ نصیر اللہ بابر گمنامی کی موت مرا، بعد ازاں اسی تیم میں کام کرنے والے کئی لوگ ایم کیو ایم کے ان بے گناہ کارکنان کے لواحقین اور اللہ پاک سے معافیاں مانگتے رہے جو پیپلز پارٹی کے دور میں ظلم کا شکار ہوئے تھے۔
1992 کے کراچی آپریشن میں مرکزی کردار ادا کرنے والے جنرل نصیر اختر، آئی بی کے بریگیڈئر امتیاز، ائی ایس ائی کے جنرل درانی سمیت پاک فوج سے تعلق رکھنے والے کئی سرکردہ سابق ذمہ داران نے بارہا انٹرویوز اور مختلف مواقع پر کراچی آپریشن پر اپنی رائے کا اظہار کر چکے ہیں، پاک فوج میں اعلی سطحی کلیدی عہدوں پر فائض ان افراد نے برملا اعتراف کیا کہ اس زمانے میں ایم کیو ایم پر لگنے والے تمام الزامات کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔
سالوں بعد چودھری نثار خان سمیت دیگر افراد کے اعترافات سے ایم کیو ایم اور اس کارکنان ایک پہلو سے فخریہ یہ تو بول سکتے ہیں کہ ہم بے قصور تھے، ہم سے زیادتی کی گئی، دنیا دیکھ لے کہ ہم پر لگائے گئے الزامات غلط تھے، لیکن اس سارے معاملے کا سب سے دکھ کا پہلو جو نکلتا ہے وہ ان بے گناہ کارکنان کی زندگی چھین لینا، برسوں جیلوں کی صعوبتیں برداشت کرنا،گھر بار خاندانوں کا برباد ہونا، اس کا مداوا کیسے اور کیونکر ہو گا، ذہنی و جسمانی معذور بن جانے والے کارکنان کے نقصانات کی تلافی کیسے ہوگی، ایم کیو ایم کے خلاف منظم میڈیا ٹرائل سے عوامی چہرہ بگاڑنے کی تلافی کیسے ہو گی۔
یہ بات ہر باخبر اور متعلقہ شخص بخوبی جانتا ہے کہ ہمارے قومی محب الوطن ریاستی اداروں کی نظر میں ایم کیو ایم کا امیج خراب کرنے کی اصل ذمہ دار پیپلز پارٹی اور اس کے زیر کنٹرول متعصب پولیس ہے، جو من گھڑت، جھوٹی اور بے بنیاد رپورٹس عرصہ دراز سے قومی اداروں اور فیصلہ ساز قوتوں کو بھیج رہی ہے، امن و امان اور اپیکس کمیٹیوں کے اجلاس میں سندھ پولیس ایم کیو ایم کو ہر بگاڑ اور برائی کا سبب بتا کر ایم کیو ایم مخالف ماحول بناتی رہی ہنے،۔۔ ایک طرف ایم کیو ایم کا قومی اداروں کو گمراہ کر کے ان کی نظر میں مہاجر قوم کا امیج خراب کرنا اور دوسری طرف اپنی بدعنوانی اور علیحدگی پسندوں کی سرگرمیاں چھپانے کی کی کامیاب کوششیں کرتی رہتی ہے۔
چودھری نثار خان جیسے ا یک سنجیدہ انسان اور کلیدی حکومتی عہدوں پر رہنے والے شخص کے اعترافات کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ ایم کیو ایم اور مہاجروں کی محب الوطنی پر شک کیا جائے، اور ایم کیو ایم کے بارے میں شک و شبہات میں مبتلا ہوا جائے، ہمارے باخبر قومی ادارے بھی اب جان چکے ہیں کہ مہاجر قوم اور ان کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم ملک کی سلامتی و استحکام کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے، اور ملک دشمنوں کے سامنے ایک سیسہ پلائی دیوار ہے۔
نوٹ: آپ اپنی خبریں، پریس ریلیز ہمیں ای میل zaraye.news@gmail.com پر ارسال کرسکتے ہیں، علاوہ ازیں آپ ہمیں اپنی تحاریر / آرٹیکل اور بلاگز / تحاریر / کہانیاں اور مختصر کہانیاں بھی ای میل کرسکتے ہیں۔ آپ کی بھیجی گئی ای میل کو جگہ دی جائے گی۔
ٹویٹر اکاؤنٹ @ZarayeNews
فیس بک @ZarayeNews