Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the wordpress-seo domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/zarayeco/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
یوٹیوب پر بیٹھنے والا صحافی کیسے، مینار پاکستان واقعے کے ملزمان پکڑے گئے تو صحافیوں پر حملہ کرنے والے کیوں نہیں؟ سپریم کورٹ کے سوالات |

یوٹیوب پر بیٹھنے والا صحافی کیسے، مینار پاکستان واقعے کے ملزمان پکڑے گئے تو صحافیوں پر حملہ کرنے والے کیوں نہیں؟ سپریم کورٹ کے سوالات

یوٹیوب پر بیٹھنے والا صحافی کیسے، مینار پاکستان واقعے کے ملزمان پکڑے گئے تو صحافیوں پر حملہ کرنے والے کیوں نہیں؟ سپریم کورٹ کے سوالات

اسلام آباد: صحافیوں کو ہراساں کرنے کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی، جس میں جسٹس منیب اختر نے یوٹیب پر بیٹھ کر خود کو صحافی کہنے والوں کے خلاف سخت ریمارکس دیے۔

جسٹس منیب اختر نے یوٹیوبر کے صحافی ہونے پر سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ ’اگر منیب اختر اٹھ کر یوٹیوب چینل بنا لے اور سب کیخلاف بولنا شروع کر دے، تو کیا یہ بھی صحافت کہلائے گا؟‘۔

ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کے سامنے موقف اپنایا کہ آزادی صحافت پر یقین رکھتے ہیں لیکن ریگولیشن پیکا ایکٹ کے تحت کرتے ہیں۔ جسٹس منیب اختر بولے ڈی جی صاحب پریس کی ریگولیشن پیکا ایکٹ کے تحت نہیں ہوتی، اپنی سوچ میں شفافیت لائیں،صحافتی آزادی آرٹیکل 19 کے تحت ہوتی ہے۔

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ مینار پاکستان واقعہ کے 400 ملزمان پکڑے جا سکتے ہیں تو صحافیوں پر حملے کے کیوں نہیں؟ ملزمان کا گرفتار نہ ہونا آئی جی صاحب آپکی ناکامی ہے،

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اسلام آباد میں تین سے چار صحافیوں پر حملے کیے گئے،دن دیہاڑے ایک صحافی کو گولی ماری گئی،آپ ملزمان نہیں پکڑ سکے، ہم نے سی سی ٹی وی سے شکلیں ٹریس کر کے نادرا کو بھجوائیں لیکن شناخت نہیں ہو سکی۔