دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لیے زیر استعمال بھینسوں کے انجکشن پر پابندی
کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) سپریم کورٹ کے احکامات پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) نے مصنوعی ہارمون انجکشن آر بی ایس ٹی کی رجسٹریشن منسوخ اور فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جبکہ کراچی کی 29 بھینس کالونیوں میں پولیس کے اعلی افسران کے باڑوں پر ممنوع انجکشن بوسٹین اور سوموٹیک بھینسوں کو لگائے جاتے ہیں ، اور پولیس افسران سمیت نام نہاد فارمز تنظیمیں غیر قانونی انجکشن فروخت کرنیوالوں کی سرپرستی بھی کررہے ہیں ،سکھن بھینس کالونی ممنوع انجکشن کی منڈی بن چکی ہے ۔ مقامی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ملزمان کو ڈرگ انسپکٹر کی مدعیت میں مقدمہ درج کرنے کے بجائے گٹکا ماوا کے دو ہلکے دفعات 269 اور 270 ت پ کے تحت ایف آئی آر درج کی جاتی ہے ، گرفتار ملزمان شعبہ تفتیش کو رشوت ادا کر کے تھانے سے شخصی ضمانت پر گھر چلے جاتے ہیں اور دوسرے روز کورٹ سے ضمانت حاصل کرنے کے بعد پولیس کی شہ پر غیر قانونی انجکشن کا مکروہ دھندہ پھر سے شروع کرلیتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک سال قبل سپریم کورٹ کے حکم پر ڈریپ نے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو مذکورہ انجکشن کی تیاری بند کرنے اور بازار میں موجود اسٹاک واپس لینے کے احکامات جاری کئے تھے، ڈریپ نے فیڈرل ڈرگ انسپکٹرز اور صوبائی وزارتوں کو مذکورہ احکامات پر عمل درآمد کرانے کی ہدایت جاری تھی ، ڈریپ نے صوبائی حکومتوں اور فیڈرل ڈرگ انسپکٹرز کو ہدایت دی تھی کہ مویشیوں میں دودھ کی پیداوار میں اضافہ کرنیوالے انجکشن کی خرید و فروخت کرنیوالوں کیخلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے ، اس حوالے سے بوسٹن انجکشن رجسٹریشن نمبر 020819 بوسٹن ایس انجکشن رجسٹریشن نمبر 09645 اور سوماٹیک انجکشن رجسٹریشن نمبر 020827 کی رجسٹریشن کو بھی منسوخ کردیا گیا تھا ، ڈریپ نے ان انجکشنوں کی تیاری اور فروخت کو غیر قانونی قرار دیا تھا،جبکہ شہر کے مختلف علاقوں میں 29 کے قریب بھینس کالونیوں ہے ، جن میں بھینس کالونی لانڈھی، کیٹل کالونی یوسف گوٹھ، کیٹل کالونی پیری، کیٹل کالونی بلال کالونی، سرجانی کیٹل کالونی کے علاوہ دیگر کئی بھینس کالونیاں شامل ہیں، مذکورہ علاقوں میں سینکڑوں کی تعداد میں بھینسوں کے باڑے قائم ہیں ،جبکہ بیشتر کیٹل کالونیوں میں باڑوں کے اصل مالکان پولیس کے بعض حاضر پولیس افسران یا ریٹائرڈز پولیس افسران ہیں ، جوکہ زائد منافع خوری کی لالچ میں کینسر کا باعث بننے والے ممنوع انجکشن کا استعمال دھڑلے سے کر رہے ہیں ، اور شہر بھر میں بوسٹن ، سوموٹیک اور کھلی اینٹی بایوٹک ایک منظم گروہ پولیس کے اعلی افسران کی پشت پناہی حاصل ہونے پر فروخت کررہا ہے ، اگر پولیس انٹیلی جنس بنیادوں پر ممنوع انجکشن سپلائی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرتی ہےتو پولیس کے اعلی افسران کی مداخلت پر گرفتار ملزمان کو چھڑ دیا جاتا ہے ، یا تو کارکردگی دکھانے کے لئے گٹکا ماوا کے دو ہلکی نوعیت کے دفعات 269 اور 270 ت پ کے تحت مقدمہ قائم کردیا جاتا ہے ، شعبہ تفتیش گرفتار ملزمان سے مک مکا کر کے شخصی ضمانت پر چھوڑ دئیے جاتے ہیں ، ملزمان دوسرے روز کورٹ سے ضمانت حاصل کرنے کے بعد مقامی پولیس کی شہ پر ممنوع انجکشن کی سپلائی پھر سے شروع کر لیتے ہیں ، زرائع کا کہنا ہے کہ کراچی شہر میں 5 فیصد کے قریب بھینسوں کے باڑوں کے ملکان سابق اور موجود پولیس کے اعلی افسران ہیں ، جن کو گلشن 13 ڈی ، ناظم آباد ، صدر ، رضویہ سوسائیٹی ، میمن گوٹھ ، سینڑل اور شاہ فیصل کالونی کے علاقے سے بوسٹن اور سوموٹیک نامی غیر قانونی انجکشن منظیم طریقے سے سپلائی کئے جاتے ہیں، ملوث گروہ ممنوع انجکشن کی خرید و فروخت کی تمام ڈیل واٹس ایپ کے زریعے طے کرتے ہیں ، اور ایک طے شدہ مخصوص مقام پر ڈیلوری دی جاتی ہے ۔سکھن بھینس کالونی سے منسلک ذرائع نے بتایا ہے کہ عدالت کی جانب سے ممنوع انجکشن پر سخت پابندی کے باوجود بھینس کالونی کی نام نہاد فارمرز ایسوسی ایشن کے بعض زمہ دار بھی نا صرف ممنوع انجکشن کی فروخت میں ملوث ہیں بلکہ سرغنوں کی پشت پناہی بھی کرنے کے ساتھ ساتھ باہر ممالک سے ممنوع انجیکشن کی اسمگلنگ میں بھی ملوث ہیں۔ خودساختہ تنظیموں کی ملی بھگت سے کیٹل کالونی میںزیروپوائنٹ سے لیکر بھینس کالونی روڈ نمبر بارہ تک ایک درجن سے زائد میڈیکل اسٹوروں پر بوسٹن اور سومو ٹیک نامی ممنوع انجیکشن فروخت کئے جارہے ہیں۔مقامی ذرائع نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال کسٹم انٹیلیجنس نے بھینس کالونی کے اہم سرغنہ کے قبضے سے تین کروڑ سے زائد مالیت کے ممنوع انجکشنز کراچی اسمگلنگ کرتے ہوئے اسےگرفتار کیا تھا، مذکورہ سرغنہ کی گرفتاری کے باوجود بھینس کالونی میں قائم پانچ ہزار سے زائد بھینسوں کے باڑوں میں متواتر ممنوع انجکشن استعمال ہوتا رہا۔ ذرائع کے بقول سرغنہ صدرالدین کی گرفتاری کے بعد بھینس کالونی میں مذکورہ مکروہ دھندہ اویس شاہ، اور سید محسن شاہ نے شروع کردیا مذکورہ دونوں سرغنہ بھینس کالونی کے مختلف علاقوں میں قائم میڈیکل اسٹوروں اور بھینسوں کے باڑوں میں ممنوع انجکشن کی سپلائی دینے کے ساتھ بھینس کالونی روڈ نمبر نو بروہی ھوٹل کے ساتھ گلی میں شاہ جی نامی میڈیکل اسٹور سے بھی ممنوع انجکشن فروخت کرتے ہیں۔ مقامی ذرائع نے بتایا ہے کہ اویس شاہ اور محسن شاہ کو کیٹل کالونی کی نام نہاد فارمرز ایسوسی ایشن کے زمہ داروں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، جنہوں نے نئے تعینات ہونے والے ڈی ایس پی سکھن سمیت متعقلہ تھانے کے ایس ایچ او کو اعتماد میں لینے کے بعد اور ماہانہ بھتہ طے ہونے پر ممنوع انجیکشن کی فروخت کی اجازت دلا رکھی ہے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کسٹم انٹیلیجنس کے ہاتھوں گرفتار سرغنہ صدرالدین نے ضمانت ملنے کے بعد مذکورہ دھندہ پھر سے شروع کرلیا ہے۔ جبکہ بھینسوں کو لگنے والے ممنوع انجیکشن افریقہ سے باقاعدہ طور پر اسمگلنگ کے ذریعے بزریعہ ائیرلائن پاکستان کے مختلف ائیرپورٹس پر ایف آئی اے کسٹم انٹیلیجنس کی ملی بھگت سے دیگر شہروں سے کراچی اسمگل کئے جاتے ہیں اور کراچی ائیرپورٹ پر بھی یہی دھندہ گزشتہ کئی سالوں سے چل رہا ہے۔ذرائع نے بتایا ہے کہ ممنوع انجکشن کی سب سے بڑی منڈی ضلع ملیر سکھن کیٹل کالونی قرار دی جاتی ہے، یہاں پر یومیہ ہزاروں کی تعداد میں ممنوع انجکشن دودھ کی مقدار بڑھانے کے لئے بھینسوں کو لگائے جاتے ہیں ، مذکورہ علاقے میں اس دھندے سے منسلک اہم سرغنہ مقامی پولیس سمیت محکمہ ڈرگ کو بھی رشوت کے عیوض باقاعدگی سے رقم ادا کرتے ہیں ،جس کی وجہ سے کوئی بھی زمہ دار ادارہ بھینس کالونی میں قائم جانوروں کی ادویات فروخت کرنے کی آڑ میں ممنوع انجکشن کی فروختگی میں ملوث اہم سرغنوں اور انکے کارندوں کے خلاف کاروائی سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔اس ضمن میں سایہ نیوز کی ٹیم نے ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر شاکر عمر گجر سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ بھینس کالونی کی ہر گلی میں ایسوسی ایشنز بنی ہوئی ہیں جوکہ باقاعدہ اس مکروہ دھندے میں ناصرف ملوث ہیں بلکہ مقامی پولیس کو ہفتہ وار بھتہ بھی ادا کرتے ہیں ،ایسوسی ایشن کے صدر کا کہنا تھا کہ مذکورہ ممنوع انجکشن کے استعمال سے ہارمونز تبدیل ہونے کے ساتھ دودھ میں کینسر جیسے موذی مرض جنم لیتا ہے۔واضر ہے کہ ملیر پولیس بوسٹن اور سوموٹیک نامی ممنوع انجکشن کی سپلائی اور فروخت میں ملوث عناصر کو گرفتار کر نے کے بعد بالا افسران کو گمراہ بنانے کے لئے کر کے مقدمہ میں دفعہ 269 اور 270 ت پ کے تحت درج کیا جاتا ہے ، پولیس کے ہاتھوں گرفتار ملزمان شاہد اور ساتھی ملزم رستم نے پولیس تفتیش کے دوران اعتراف کیا تھا کہ کرولا کار میں کراچی کی 29 بھینس کالونیوں میں بوسٹن انجکشن سپلائی کرتے تھے۔ اور گرفتار 4 ملزمان نجی چینل کی آڑ میں ممنوع انجکشن کے دھندے میں ملوث تھے،تاہم پولیس نے درج مقدمات کی تفتیش متعلقہ تھانوں شعبہ انوسٹی گیشن کے سپر تھی، تاہم پولیس نے گرفتار ملزمان کو ایف آئی آرزسمیت ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حوالے نہیں کیا ، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملزمان کو کورٹ سے ضمانت مل گئی۔
نوٹ: آپ اپنی خبریں، پریس ریلیز ہمیں ای میل zaraye.news@gmail.com پر ارسال کرسکتے ہیں، علاوہ ازیں آپ ہمیں اپنی تحاریر / آرٹیکل اور بلاگز / تحاریر / کہانیاں اور مختصر کہانیاں بھی ای میل کرسکتے ہیں۔ آپ کی بھیجی گئی ای میل کو جگہ دی جائے گی۔
ٹویٹر اکاؤنٹ @ZarayeNews
فیس بک @ZarayeNews