Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the wordpress-seo domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/zarayeco/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
قائد اعظم اور فاطمہ جناح کے گمشدہ اثاثوں کی تلاش کا حکم |

قائد اعظم اور فاطمہ جناح کے گمشدہ اثاثوں کی تلاش کا حکم

قائد اعظم اور فاطمہ جناح کے گمشدہ اثاثوں کی تلاش کا حکم

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح اور ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کے چھوڑے گئے قیمتی اثاثوں اور سامان کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا حکم دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس ذوالفقار احمد خان کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے سنگل جج بینچ نے نشاندہی کی کہ تقریباً 50 سال پرانے مقدمے میں تفصیلی جائیدادوں بشمول کاریں، شیئرز، زیورات اور بینک بیلنس کا کبھی پتہ نہیں چل سکا جب کہ اس سے قبل سامنے آنے والی کئی دیگر اشیا بھی اب غائب ہیں۔

بینچ نے کہا کہ جسٹس (ر) فہیم احمد صدیقی کی سربراہی میں ایک رکنی کمیشن قائداعظم اور فاطمہ جناح کی متعدد قیمتی اشیا اور اثاثوں کی گمشدگی کی تحقیقات کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن کو کسی سے بھی مدد لینے، سرکاری اہلکار اور کسی بھی ادارے سے کال ریکارڈ حاصل کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔

کیس پر سماعت کے دوران ایک اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل (اے اے جی) نے عدالت کو بتایا کہ 13 اکتوبر کو بینچ کا قصر فاطمہ، جسے عام طور پر موہٹہ پیلس کے نام سے جانا جاتا ہے، کو قبضے میں لینے اور وہاں میڈیکل کالج قائم کرنے کا حکم صوبائی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل پر 8 نومبر کو دو ججز کے ڈویژن بینچ نے معطل کر دیا تھا۔

اے اے جی نے اس بنیاد پر سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی کہ سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل خود اس معاملے پر دلائل دیں گے۔

تاہم درخواست گزار کے وکیل نے نشاندہی کی کہ صرف حکومت کو موہٹہ پیلس کا قبضہ لینے سے روکا گیا تھا اور باقی آرڈر ابھی بھی موجود ہے۔

موہٹہ پیلیس گیلری ٹرسٹ کے وکیل نے، جو اس وقت وراثتی جائیداد کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، نے مقدمے میں مداخلت کرنے کے لیے درخواست دائر کی اور بینچ نے درخواست پر مدعی کے ساتھ ساتھ مدعا علیہان کو 8 دسمبر کے لیے نوٹس جاری کیا۔

اپنے 13 اکتوبر کے حکم میں بینچ نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ بابائے قوم اور ان کی بہن کے چھوڑے گئے تمام درج اثاثوں کی بازیابی کے معاملے کو آگے بڑھائے گا اور ان اثاثوں کو منظر عام پر لانے کے لیے اپنے پاس موجود تمام اختیارات کا استعمال کرے گا۔

عدالت نے حکومت کو وراثتی جائیداد پر قبضہ کرنے اور عمارت میں موجود تمام سامان کی فہرست بنانے کے ساتھ ساتھ تمام فریقین کی رضامندی سے میڈیکل کالج قائم کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔

تاہم سندھ ہائی کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے حکومت کو 18 نومبر تک قصر فاطمہ کا قبضہ لینے سے روک دیا تھا کیونکہ صوبائی حکومت نے سنگل بینچ کے 13 اکتوبر کے حکم کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کردی تھی۔

ابتدائی طور پر مقدمہ فاطمہ جناح کے رشتہ دار حسین والی جی نے 1971 میں قصر فاطمہ سمیت ان کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادوں کے انتظام کے بارے میں دائر کیا تھا اور اصل مدعی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے امیر علی کو بطور درخواست گزار نامزد کیا گیا تھا۔

تاہم اس مقدمے کی سماعت کے دوران وہ بھی انتقال کر گئے تھے اور ان کا بیٹا نازش امیر علی کارروائی کا حصہ بن گیا تھا۔

قانونی کارروائی 10 جولائی 1967 کو فاطمہ جناح کی موت کے بعد ان کی واحد زندہ بچ جانے والی بہن شیریں جناح کو ایسی جائیدادوں کا سرٹیفکیٹ دینے کے بعد شروع کی گئی تھی۔

بشکریہ ڈان نیوز


نوٹ: آپ اپنی خبریں، پریس ریلیز ہمیں ای میل zaraye.news@gmail.com پر ارسال کرسکتے ہیں، علاوہ ازیں آپ ہمیں اپنی تحاریر / آرٹیکل اور بلاگز / تحاریر / کہانیاں اور مختصر کہانیاں بھی ای میل کرسکتے ہیں۔ آپ کی بھیجی گئی ای میل کو جگہ دی جائے گی۔

ٹویٹر: twitter.com/zarayenews

فیس بک: facebook/zarayenews

انسٹاگرام : instagram/zarayenews

یوٹیوب: @ZarayeNews