پاکستان اسٹیل کی 2ہزار ایکڑ اراضی فروخت، انتظامیہ دیکھتی رہ گئی
کراچی (اسٹاف رپورٹر) پاکستان اسٹیل کی 19؍ ہزار ایکڑ اراضی میں سے کھربوں روپے مالیت کی 2؍ ہزار ایکٹر اراضی پر سسٹم مافیا نے قبضہ کرکے فروخت بھی کردی اور انتظامیہ دیکھتی دیکھتی رہ گئی، انتظامیہ نے اپنی جان بچانے کیلئے عدالت میں کیس داخل کردئیے تاکہ پوچھنے پر انتظامیہ کہہ سکے کہ ہم نے عدالت سے رجوع کررکھا ہے ۔
مارکیٹ میں اراضی کی فی ایکڑ ویلیو تقریباً 9؍ کروڑ روپے سے زائد ہے، حکومت سندھ نے فروری میں ہونے والے کابینہ اجلاس میں وفاق سے اراضی واپس مانگ لی ہے،سندھ حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان اسٹیل کو اراضی پاکستان ملز کیلئے دی گئی تھی ،اراضی فروخت کرنے کا پاکستان اسٹیل کو حق حا صل نہیں ہے، حکومت سندھ نے پاکستان اسٹیل کی اراضی کی منتقلی اور فروخت پر پابندی عائد کرتے ہوئے تمام متعلقہ محکموں کو احکامات جاری کردیئے ہیں۔
پاکستان اسٹیل کو عمران خان حکومت کے دوران 142؍ ارب روپے کا مزید خسارہ اور واجبات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ مجموعی خسارہ اور واجبات 525؍ ارب روپے ہوگیا ہے۔ پاکستان اسٹیل کی بحالی کیلئے صرف 50؍ ارب روپے کی ضرورت تھی،حکومت نے یہ رقم خرچ کرنے کے بجائے 525؍ارب روپے کا خسارہ و نقصان برداشت کرلیا،وفاقی وزیر اسد عمر نے اپنی انتخابی مہم کے دوران پاکستان اسٹیل کی بحالی کی بات کی تھی لیکن وفاقی وزیر بنے کے بعد انہوں نے پاکستان اسٹیل کی بحالی میں کوئی کردار نہیں کیا۔
پاکستان اسٹیل کی نا اہل انتظامی افسران جو اسٹیل بنانے کے لئے مہارت رکھتے ہیں اہم پوسٹوں پر لگا دیا ہے دریں اثناء پاکستان اسٹیل کے اسٹیک ہولڈر گروپ کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل کو اربوں کے بوجھ تلے دبا دیا لیکن بحالی صرف 50؍ ارب روپے خرچ نہیں کئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اسٹیل ابھی بحال ہوسکتی ہے لیکن لگتا ہے کہ حکومت پاکستان اسٹیل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، اسٹیک ہولڈر گروپ کے ترجمان ممریز خان کا کہنا تھا کہ پاکستان اسٹیل میں بد انتظامی انتہا پر پہنچ چکی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے پچھلے ساڑھے تین برس میں پاکستان اسٹیل شدید مالی و انتظامی بدحالی کا شکار ہے۔
ادارے کے آڈٹ شدہ حسابات کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کے صرف ابتدائی ڈھائی برسوں میں جولائی 2018ء تا دسمبر 2021ء پاکستان اسٹیل ملز کو 44.48؍ ارب روپے کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ قابل ادا واجبات میں 96.61؍ ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
تاہم موجودہ انتظامیہ کی جانب سے پچھلے مالی سال 2020-21ء کے آڈٹ شدہ مالی حسابات تاحال جاری نہ کیے جاسکے۔ پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں نہ تو اس ادارے کو فعال کیا جا سکا اور نہ ہی 11؍ لاکھ ٹن سالانہ کی پیداواری صلاحیت کے حامل اس پلانٹ سے ایک ٹن اسٹیل کی پیداوار حاصل کی جاسکی۔
اسٹیل ملز اسٹیک ہولڈرز گروپ کے مطابق ادارے میں نہ صرف مالی بلکہ انتظامی بدعنوانیاں بھی عروج پر ہیں۔
اسٹیل ملز کی موجودہ انتظامیہ تقریباً 5500؍ ملازمین کو جبری برطرف کرنے کے باوجود بغیر کسی اشتہار اور مسابقتی عمل کے، میرٹ کے برعکس، اقرباء پروری کی بنیاد پر، 60؍ سال سے زائدالعمر اور مطلوبہ تعلیمی قابلیت اور تجربہ نہ رکھنے والے افراد کی من پسند بھرتیوں اور تعیناتیوں میں مصروف ہے۔
اسٹیل ملز کے موجودہ کارپوریٹ سیکرٹری محمد شفیق انجم نہ صرف ایس ای سی پی کارپوریٹ گورننس رولز کے مطابق مطلوبہ تعلیمی قابلیت نہیں رکھتے بلکہ 60سال کی عمر میں 6؍ اپریل 2021ء کو ریٹائر بھی ہو چکے ہیں تاہم اسٹیل ملز آفیسرز سروس رولز، پبلک سیکٹر کمپنیز رول14(4) اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ایسٹاکوڈ(ESTACODE) رولز 7.3(2) اور(3) اور سپریم کورٹ کے 60سال سے زائد العمر ملازمین کی خلاف ضابطہ دوبارہ تقرریوں سے متعلق واضح فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں 7؍ اپریل2021ء سے مبلغ 175,000ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ودیگر مراعات پر ایک سالہ کنٹریکٹ پر دوبارہ تعینات کیا گیا ہے جو کہ خلاف قانون ہے۔
اسی طرح موجودہ سی ای او بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) شجاع حسن مطلوبہ انجینئرنگ ڈگری اور نہ ہی بزنس یا فنانس کی مطلوبہ تعلیمی قابلیت اور تجربہ رکھتے ہیں اور انکی تعیناتی ایک اشتہار کے ذریعے ابتدائی طور پر 20؍ اگست 2020ء سے ایک سالہ کنٹریکٹ پر کی گئی جس میں ان سے زیادہ تعلیمی قابلیت،اہلیت اور تجربہ رکھنے والے افراد کو دانستہ نظر انداز کیا گیا۔
مزیدبرآں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے اس خلاف ضابطہ تعیناتی پر آڈٹ رپورٹ 2019-20ء میں واضح اعتراض اور انکی ایک سالہ خراب مالی کارکردگی کے باوجود پی ٹی آئی حکومت نے انہیں 20؍ اگست 2021ء سے مزید ایک سال کےلئے کنٹریکٹ میں توسیع دے دی اور وہ تقریباً ساڑھے چار لاکھ روپے سے زائد ماہانہ تنخواہ اور دیگر مراعات وصول کر رہے ہیں۔ موجودہ پی ای او اے اینڈ پی کرنل (ریٹائرڈ) طارق خان بھی 60؍ سال سے زائد العمر مطلوبہ تعلیمی قابلیت اور تجربہ نہ رکھنے کے باوجود تمام قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹیلر میڈ اشتہار کے ذریعے جنوری 2020 میں ایک سالہ کنٹریکٹ پر 250,000 روپے ماہانہ تنخواہ ودیگر مراعات پر تعینات ہوئے اور بغیر کسی قابل قدر کارکردگی کے مزید ایک سال کا کنٹریکٹ 29؍ جنوری 2021ء سے 350,000؍ روپے ماہانہ تنخواہ پر حاصل کیا۔ ان کا گزشتہ کنٹریکٹ 28؍ جنوری 2022ء کو اختتام پذیر ہو چکا تھا موجودہ سی ای او اور پی ای او کی ان غیرقانونی تعیناتیوں کے خلاف پیپلز ورکرز یونین کی آ ئینی درخواست CP-(D)4969/2020بھی تاحال سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
60سال کی عمر میں ریٹائر ہو کر غیرقانونی تقرری حاصل کرنے والوں میں موجودہ انچارج لینڈ محمد اقبال بھی شامل ہیں جن کے پاس سول انجینئرنگ کی مطلوبہ تعلیمی قابلیت بھی نہیں،موجودہ انتظامیہ کے دور میں 4؍ ستمبر 2021ء کو 60سال کی عمر میں ریٹائر ہونے والے ایکٹنگ منیجر اکاؤنٹ سید شکیل اختر بھی دوبارہ غیر قانونی تعیناتی حاصل کر چکے ہیں جبکہ وہ ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی 57؍ لاکھ روپے کے واجبات ایڈوانس کی مد میں حاصل کر چکے تھے۔ اسی طرح سابقہ انچارج ٹرانسپورٹ جام داد خان بھی 60؍ سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہونے کے باوجود دوبارہ انچارج گیسٹ ہاؤس تعینات کردیئے گئے۔
واضح رہے کہ گیسٹ ہاؤس کو کرنل(ریٹائرڈ) طارق خان اور متعدد افسران اپنی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور بند اسٹیل ملز میں ان افراد کے قیام وطعام اور دیگر فرمائشوں کی تکمیل پر ہر ماہ لاکھوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں، حال ہی میں مالی سال 2020-21 کے گورنمنٹ کمرشل آڈٹ کے دوران اسٹیل ملز کے 6 ریٹائرڈ افسران کی دوبارہ تقرریوں اور ادارے میں 36 ڈیلی ویجر ملازمین کی غیر ضروری، خلاف ضابطہ اور بغیر کسی مقابلے کی بنیاد پر بھرتیوں پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے اعتراضات بھی سامنے آگئے ہیں اور ان تمام افراد کو ادا کی گئی تقریباً 56لاکھ روپے تنخواہوں کی رقم کو غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
دریں اثناء پاکستان اسٹیل کی صورتحال پر موقف لینے کیلئے چیف ایگزیکٹو افسر شجاع حسین کاظمی کو فون کیا تو انہوں رونگ نمبر قرار دے کر فون بند کردیا جبکہ چیف ایگزیکٹو افسر کے اسٹاف افسر فیصل خان جن کے 4نمبر ہیں ،انہوں نے کہا کہ آپ آفس ٹائم پی آر یا ایچ آر کے محکمہ میں رابطہ کریں ،انہوں کہا کہ اس وقت مزید کوئی بات نہیں کرسکتا میں نجی تقریب میں ہوں۔