Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the wordpress-seo domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/zarayeco/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
باجوہ ڈاکٹرائن: سپہ سالار کی خدمات پر ایک نظر |

باجوہ ڈاکٹرائن: سپہ سالار کی خدمات پر ایک نظر

جنرل باجوہ کون؟
شاندار ماضی سے کامیاب ترین حال تک کا سفر!۔

جنرل راحیل شریف کے بعد 29 نومبر 2016ء کو پاکستان کے سولہویں سپہ سالار کی حیثیت سے پاک فوج کی کمان سنبھالنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ کون تھے اور ان کی کیا گراں قدر خدمات رہیں؟

وہ غازی کرنل اقبال جاوید باجوہ کے فرزند ہیں۔ وہی کرنل اقبال باجوہ جنہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں دشمن کے دانت کھٹے کئے۔ کرنل اقبال باجوہ کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے تھا۔ کرنل اقبال باجوہ 1967ء میں کوئٹہ میں دوران ڈیوٹی حرکت قلب بند ہونے کے باعث اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔

کرنل اقبال باجوہ کے بھائی محمد صفدر باجوہ ‏6 ﺳﺘﻤﺒﺮ 1965 ﮐﻮ ﺑﻢ ﻟﮕﻨﮯ ﺳﮯ شہید ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔

6 ﺳﺘﻤﺒﺮ 1965 ﮐﯽ ﺻﺒﺢ ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﻓﻀﺎﺋﯿﮧ ﮐﮯ ﻃﯿﺎﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﮔﮑﮭﮍ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺩﮬﻮﻧﮑﻞ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮔﺎﮌﯼ ﭘﺮ ﺑﻤﺒﺎﺭﯼ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻓﻀﺎﺋﯽ ﺟﻨﮓ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﮐﯿﺎ۔

ﻣﮕﺮ ﺟﺐ ﭘﺎﮎ ﻓﻀﺎﺋﯿﮧ ﮐﮯ ﺷﺎﮬﯿﻨﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﺑﺰﺩﻝ ﻃﯿﺎﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﮔﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﮑﮭﮍ ﮐﮯ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﺍﻭﺭ شہر ﮐﯽ ﻧﮩﺘﯽ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﭘﺮ بم ﮔﺮﺍﺋﮯ۔

ﮔﮑﮭﮍ ﭘﺮ ﺑﻤﺒﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﺎﮎ ﻓﻀﺎﺋﯿﮧ ﮐﮯ ﺷﺎہینوں ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﻃﯿﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﭼﻨﺪ ﻣﯿﻞ ﺩﻭﺭ ﻣﺎﺭ ﮔﺮﺍﯾﺎ۔ ﺟﺐ ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﻃﯿﺎﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﮔﮑﮭﮍ ﮐﯽ ﻧﮩﺘﯽ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﭘﺮ بمباری کی تو چوہدری محمد صفدر باجوہ اسی بمباری کی ذد میں شہید ہو گئے۔

ﻋﯿﻦ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﮐﮭﯿﻢ ﮐﺮﻥ ﮐﮯ ﻣﺤﺎﺫ ﮐﮯ ﻣﺤﺎﺫ ﭘﺮ ﮐﺮﻧﻞ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﺑﺎﺟﻮﮦ ﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﯿﭙﭩﻦ ﺍﺣﻤﺪ ﺳﻌﯿﺪ ﺑﺎﺟﻮﮦ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﻃﯿﺎﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﺑﻤﺒﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﮐﮯ ﺷﯿﺮﻭﮞ ﻧﮯ اس حملے کا منہ توڑ جواب دیا۔

ﮐﺮﻧﻞ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﺑﺎﺟﻮﮦ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﺁﺭﺍﻡ ﮔﺎﮦ ﮔﮭﮑﮍ ﻣﻨﮉﯼ ﮐﮯ ﭼﯿﻤﯿﺎﮞ ﻭﺍﻻ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔

ﺟﺐ ﺟﻨﺮﻝ ﻗﻤﺮ ﺟﺎﻭﯾﺪ ﺑﺎﺟﻮﮦ ﺁﺭﻣﯽ ﭼﯿﻒ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮔﮑﮭﮍ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺍﻭﺭ ﺷﮭﯿﺪ ﭼﭽﺎ ﮐﯽ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﺗﻮ ﺳﯿﻨﮧ ﺗﺎﻥ ﮐﺮ ﻓﺨﺮ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ “ﺩﯾﮑﮫ ﻟﻮ!ﻣﯿﺮﮮ ﭼﭽﺎ 1965 ﮐﯽ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ شہید ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﺗﻌﻠﻖ ﻏﺎﺯﯾﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺪﺍﺀ ﮐﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺳﮯ ﮨﮯ۔”

جنرل باجوہ کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے ہے۔ جنرل باجوہ کے والد اور انکے سسر کا تعلق بھی بلوچ رجمنٹ سے بتایا جاتا ہے۔ بلوچ رجمنٹ سے محبت کے متعلق جنرل باجوہ کا کہنا ہے کہ “یوں سمجھ لیں بلوچ رجمنٹ میرے خون میں ہے۔”

باجوہ ڈاکٹرائن

جنرل قمر جاوید باجوہ نے جب کمان سنبھالی تو پاکستان کو بےشمار چیلنجز درپیش تھے۔ جنرل راحیل شریف نے احتسابی عمل کا آغاز کیا اور دہشتگردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کیا جس کے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوۓ اور ملک بہتری کی جانب گامزن ہوا۔

جنرل باجوہ نے اسی پالیسی کو آگے بڑھایا۔ ہمیشہ سے میرا یہ ماننا رہا ہے کہ اندرونی امن اور علاقائی استحکام کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہمیشہ وہی قومیں ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھتی ہیں جنہوں نے اپنے لوگوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کی اور ان کو اپنے وطن کو ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں شامل کر نے کیلئے سازگار ماحول فراہم کیا۔

جنرل باجوہ نے بھی اسی کو اپنا نصب العین بنایا اور “سب سے پہلے پاکستان” کے موٹو کو آگے بڑھایا۔

سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف سبھی آرمی چیفس نے ایک شاندار اور قابلِ فخر جنگ لڑی ہے۔ یہ اِسی کامیاب جنگ کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا ملک ، اسلامی جمہوریہ پاکستان، دہشت گردوں سے محفوظ اور مامون ہے۔ وہ پاکستان جہاں چند لوگ اکٹھے نہ ہو سکتے تھے۔

جہاں روشنیوں کے شہر کو تاریکی نے گھیر لیا تھا ۔۔ جہاں کھیلوں کے میدن ویران کر دئیے گئے تھے جہاں دہشتگردوں نے کبھی اسلام کے نام پر اسلام آباد کو للکارنا اور دہشت گردی کا ہدف بنانا اپنا معمول بنا لیا تھا، آج وہاں رونقیں ہیں۔۔ امن ہے۔۔۔ روشنیاں ہیں۔

دشمن شکستِ فاش کے زخم چاٹ رہے ہیں۔اب بچھے کھچے دہشت گردوں کو دوبارہ پاوں نہ جمانے دینا۔۔ ان کے مالی وسائل کا مکمل خاتمہ۔۔دشمن کے ساتھ ان کے سہولتکاروں پر گہری نظر رکھنا۔۔ ان کی واپسی کے تمام ممکنہ راستوں کا انسداد۔۔ پورے ملک میں قیامِ امن اور امن کے اِس دائرے کو افغانستان تک وسعت دینا جنرل قمر جاوید باجوہ کا مصمم اور غیر متزلزل ارادہ رہا ہے۔

انہوں نے اس پر عمل بھی کیا اور اسکے اور اِس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوۓ ہیں۔
آرمی چیف کے ان اقدامات کو سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور نے “جنرل باجوہ ڈاکٹرائن” کا نام دیا۔

باجوہ ڈاکٹرائن یہ بھی ہے کہ پاکستان اخلاص اور اخوت کے تمام جذبوں کے ساتھ برادر ہمسایہ افغانستان میں کامل امن کا خواہشمند ہے ۔

اس کے حصول کے لیے پاکستان اور افواجِ پاکستان کی طرف سے تمام تر اعانت فراہم کی گئی اور اب تک کی جا رہی ہے۔ اندرونی امن کے لئے ضروری اس بات کو یقینی بنایا جاۓ کہ ہمسایہ ممالک کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لئے استعمال نہ کی جا سکے۔ پاک افغان اور پاک ایران بارڈرز پر باڑ کی تنصیب کا کام اختتامی مراحل میں داخل ہوچکا ہے جس کہ بعد امید ہے کہ پاک سرزمین چاروں اطراف سے محفوظ بنائی جا سکے گی۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کی کامیاب ڈپلومیسی نے افغانستان سے امریکی انخلاء میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
یہ باجوہ ڈاکٹرائن کے ہی ثمرات تھے کہ ہم امریکی “احکامات” اور “دھمکیوں اور بلیک میلنگ ” کو چٹکیوں میں اڑایا اور اور ببانگ دہل امریکہ سے “ڈو مور” کا مطالبہ کرنے کے قابل ہوۓ۔ اس کے بعد امریکہ کس طرح پسپا ہو کر افغانستان سے نکلا یہ سب کے سامنے واضح ہے۔

باجوہ ڈاکٹرائن کی کامیابی صرف افواجِ پاکستان کی کامیابی نہیں، بلکہ یہ پاکستان اور پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کی کامیابی ہے۔اِس کامیابی کو ممتاز ترین برطانوی سیکیورٹی تھنک ٹینک RUSI(رائل یونائٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ)نے بھی نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ افواجِ پاکستان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کو سلام بھی پیش کیا ہے۔

مذکورہ برٹش تھنک ٹینک اپنے تجزئیے میں لکھتا ہے:
“باجوہ ڈاکٹرائن نے امریکی انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کے خلاف جاری کردہ دھمکیوں اور منصوبوں کو ناکام بنا دیا ہے۔

وہ دن گئے جب امریکہ دھمکیاں اور گھرکیاں دے کر پاکستان سے اپنے کام نکلوایا کرتا تھا۔ پاکستان امریکا کے کہنے پر ڈو مور نہیں کرے گا بلکہ اب امریکا کو ڈو مور کرنا پڑے گا۔ یہی باجوہ ڈاکٹرائن ہے۔

پاکستان نے اس میں مطلوبہ کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان کے خلاف اگر امریکی پابندیوں میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر سرحد پار(افغانستان)سے پاکستان مخالف امریکی جارحیت ہوتی ہے تو جنرل قمر جاوید باجوہ کی کمان میں پاکستان نے مقابلے کی پوری تیاریاں کررکھی ہیں۔ یہ باجوہ ڈاکٹرائن کی شاندار کامیابی ہے کہ سابق سی آئی اے اسٹیشن چیفMilt Bearden(جس نے سی آئی اے سربراہ چارلی وِلسن کے ساتھ مل کر اسلام آباد میں سوویت یونین کے خلاف خفیہ جنگ لڑی) اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو بھی یہ کہنا پڑا ہے کہ افغانستان جو قدم قدم پر ناکام ہو رہا ہے، اِس میں پاکستان کا نہیں بلکہ خود افغانستان کا بنیادی قصور ہے۔”

عالمی سطح پر دفاعی ماہرین باجوہ ڈاکٹرائن کے معترف ہیں۔

پاکستان کے محترم 1ہزار 8سو 54 علمائے کرام نے دہشت گردی، شدت پسندی اور فرقہ پرستی کے خلاف “پیغامِ پاکستان” کے عنوان سے جو متفقہ اور متحدہ فتوی لکھا ہے، یہ بھی دراصل باجوہ ڈاکٹرائن کا خاصہ اور کامیابی ہے۔ پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے علما نے پیغامِ پاکستان پر دستخط ثبت کیے ہیں۔ یقینا کتابی شکل میں سامنے آنے والے پیغامِ پاکستان سے وطنِ عزیز میں دہشت گردی اور شدت پسندی میں مزید خاطر خواہ کمی آئے گی۔ تمام مکاتب فکر کے علماء کو ملکی سلامتی و استحکام کے لئے ایک نقطہ پر جمع کرنا باجوہ ڈاکٹرائن کا ایک اور کارنامہ ہے۔

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ باجوہ ڈاکٹرائن نے دنیا کو قائل کیا ہے۔محدود وسائل میں ناقابل تسخیر دفاع کے ساتھ دنیا بھر میں اپنی الگ پہچان بنائی۔ اگر کہا جاۓ کہ ماضی کے مقابلے میں دنیا بھر میں پاکستان کا امیج بہتر ہوا ہے تو غلط نہ ہوگا۔

جنرل باجوہ نے دہشتگردوں کا بیانیہ ناکام بنانے کیلئے موثر حکمت عملی اپنائی اور دہشتگردی سے نمٹنے کےلئے حتمی آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا۔ جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آۓ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد اور ملک بھر میں خفیہ معلومات کی بنیاد پر آپریشنز سے دہشت گردی کے ہر قسم کے نیٹ ورک ختم کر دیئے گئے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں فوجی سفارتکاری کا تصور سامنے آیا ، ان کے غیرملکی دورے اور پاکستان آئے غیرملکی وفود سے ملاقاتوں ، خصوصاً افغان طالبان اور امریکا میں مذاکرات میں کردار سمجھنے میں مدد ملی۔ انہوں نے سعودی عرب، قطر سمیت مختلف ممالک سے تعلقات مزید بہتر بنائے۔ ریاض اور تہران سمیت مختلف مسلم ممالک کے درمیان فوجی تعاون پیدا کرنے کیلئے موجود رکاوٹیں دور کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھیں۔

بحالی امن کے حوالے سے سپہ سالار کے وژن کو ملکی سطح پر تو سراہا ہی گیا دیگر اقوام بھی اس کی گرویدہ ہیں۔

امریکہ کی جانب سے پینٹاگون میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو گارڈ آف آنر پیش کیا اور اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ پاک فوج کے سربراہ نے جب چین کا دورہ کیا تو وہاں بھی انہیں گارڈ آف آنر دیا گیا، برطانیہ اور ایران بھی عالمی امن میں پاکستانی آرمی چیف کے کردار کے معترف ہیں۔ باجوہ ڈاکٹرائن نے سفارتی سطح پر خاطر خواہ کامیابیاں سمیٹی ہیں۔

معاشی حالت کی بہتری کیلئے جنرل قمر جاوید باجوہ کی خدمات قابل ستائش ہیں امن کے ساتھ معاشی صورتحال بہتر بنانے کیلئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو قومی ترقیاتی کونسل کا حصہ بنایا گیا۔

پاکستان کو خطے میں تنہا کر دینے کا خواب دیکھنے والا دشمن اس وقت چونکا جب جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی خصوصی دلچسپی پر کرتار پور راہداری سکھ یاتریوں کے لئے کھولنے کا اعلان کیا۔ کرتار پور راہداری نے دنیا بھر کی سکھ کمیونٹی کو دوستی کا پیغام دیا۔ یہ منصوبہ صرف 10 ماہ کی قلیل مدت میں مکمل ہوا ۔سکھ زائرین کے لئے ویزہ و دیگر سفری سہولیات میں نرمیاں کیں ۔بلاشبہ اس میں افواج پاکستان کے کردار سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا۔ آرمی چیف نے اظہار خیال کرتے ہوۓ واضح کیا تھا کہ “کرتارپور راہداری امن کی طرف ایک قدم ہے جس کی ہمارے خطے کو ضرورت ہے۔” آرمی چیف جنرل باجوہ

ملک و درپیش اندرونی خطرات ، آفات ، سیلاب ، ٹڈی دل اور پولیو جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ کورونا وباء جیسی مشکل کے خلاف بھی جنرل باجوہ کی زیر کمان ادارے این سی او سی نے بہترین کام سرانجام دیا۔ جس کی وجہ سے ورلڈ ہیلتھ آرگناءزیشن نے بھی کورونا وباء کے دوران پاکستان کے کردار کی تعریف کی!۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جہاں امن دشمنوں کیلئے قہر ثابت ہوئے وہیں ازلی دشمن بھارت کو جارحیت پر جواب کے حوالے سے بھی مرد آہن بن کر ابھرے۔ دشمن کو بارہا یہ پیغام دیا جاتا رہا ہے کہ “ہمارے امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جاۓ”
مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ حملے کے بعد پاک بھارت کشیدگی کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کردار کو بین الاقوامی سطح پرسراہا گیا۔ بالا کوٹ پر بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیکر انہوں نے انتہائی کشیدہ صورتحال میں فوج کا مورال بلند کیا۔ اور دشمن کو پیغام دیا کہ وہ رات کے اندھیرے میں آۓ یا دن کے اجالے میں ہم تیار ہیں۔

آرمی چیف جنرل باجوہ نے کارکے‘ تنازع ترک صدر رجب طیب اردوان کی مدد سے کامیابی سے حل کیا اورعالمی ثالثی ادارے (آئی سی ایس آئی ڈی) کی جانب سے کمزور ترین معاشی صورتحال میں پاکستان پر عائد ایک ارب 20 کروڑ ڈالرز کے جرمانہ سے بچا لیا۔ پاکستان پر یہ جرمانہ ورلڈ بینک کی ثالثی عدالت نے کارکے بجلی گھروں کے تنازع پر عائد کیا تھا۔ جبکہ ریکوڈک کیس پر بھی 6.2 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس تاریخی ڈیل میں بھی سول انتظامیہ کی بھرپور معاونت کی جس پر وزیر اعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے انکا شکریہ بھی ادا کیا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کے زیر کمان چین نے سی پیک منصوبوں کی سکیورٹی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کو قابل ستائش قرار دیتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا شکریہ ادا کیا ہے۔
جنرل باجوہ کا کہنا تھا “سی پیک پاکستان کامعاشی مستقبل ہے، پاک چین اقتصادی راہداری کی سیکیورٹی پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔”
پاک فوج نے ایک سی پیک کی حفاظت کے لئے جنرل باجوہ کی ہدایات پر خصوصی سیکورٹی فورس کے قیام کی منظوری دی جس میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے حفاظتی انتظامات شامل ہیں۔

باجوہ ڈاکٹرائن نے ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر عمل کرانے کے لئے سول انتظامیہ کی بھرپور معاونت میں اہم کردار ادا کیا۔

پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے مقررہ اہداف منی لانڈرنگ، ٹیرر فنانسنگ، کرپشن، مدارس کی ریگولارائزشن اور دیگر نکات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حکومت کے ساتھ پاک فوج نے بھی عملی کردار ادا کیا۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کی مجموعی کارکردگی کو سراہا اور یوں سول اور ملٹری انتطامیہ کی انتھک کوششوں سے ملک کو گرے لسٹ سے خارج کر دیا گیا۔

روشنیوں کے شہر کراچی کی روشنیاں لوٹانے۔۔ کھیلوں کے میدان آباد کرنے تک۔ فاٹا انضمام سے او آئی سی اجلاس کی میزبانی تک ہر جگہ باجوہ ڈاکٹرائن کی کامیابی اپنا لوہا منواتی نظر آتی ہے۔

آج قمر جاوید باجوہ صرف ایک سپہ سالار نہیں بلکہ عزم و ہمت کا استعارہ بن چکا ہے۔ ماضی سے حال تک کامیابیوں کی طویل داستان جس کے ثمرات پاکستان کو اگلے کئی سال تک حاصل ہوتے رہیں گے۔ ایک طویل مدت جہد مسلسل کو جنرل باجوہ نے اپنی ڈاکٹرائن کے سانچے میں ڈھال کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔

میں یقین سے کہتی ہوں بعید نہیں کہ آنے والے وقت میں “باجوہ ڈاکٹرائن” بطور دفاعی مضمون یورپ کی یونیورسٹیز میں پڑھائی جاۓ گی۔

میں یہ ضرور چاہتا ہوں کہ مؤرخ جب لکھے تو اس شخص کے ساتھ انصاف کرے۔ جس نے اپنی زندگی کے 35 سال اس ملک کی خدمت میں اسکے دفاع میں گزارے۔ جس نے کتنی ہی بار موت کا سامنا کیا۔

جو صبر و وفا کا پیکر رہا اور جب اسے کمان سنبھالنے کا موقع ملا اس نے اس ملک کو وہ سب دیا جو وہ ہمیشہ سے دینے کا خواب رکھتا تھا۔

تحریر رانا محمد شہزاد