اسٹیل ملز بند ہونے کے قریب، لاکھوں افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ

کراچی : اسٹیل ملز کے پاس صرف چار دن کا خام مال رہ گیا،ایل سیز نہ کھلنے پر ملک بھر کی سٹیل ملز غیر معینہ مدت تک بند ہو نے کے خدشات پیدا ہو گئے،لاکھوں افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔

ذرائع کے مطابق ایل سی کھولنے کا معاملہ چارکاروباری دنوں کے اندر حل نہ کیا گیا تو خام مال کی عدم دستیابی کے سبب سٹیل ملیں غیر معینہ مدت تک بند ہو سکتی ہیں جو ملک کے صنعتی نظام کیلئے ایک دھچکہ ہو گاجبکہ بڑے پیمانے پر بے روزگاری بھی پھیلے گی۔

44 صنعتیں سٹیل کی فراہمی پر انحصار کرتی ہیں جن کا چلنا مشکل ہو جائے گا۔ ذرائع کے مطابق بہت سی صنعتوں کو جب ایک بار بند کر دیا جائے تو دوبارہ انھیں چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔دسمبر کے دوران سیمنٹ کی سال بہ سال پیداوار میں نو فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے جو(3.67 ملین ٹن) جبکہ سکریپ کی درامد میں پچپن فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے( 191000ملین ٹن)۔

یہ گزشتہ 10 سال میں سال بہ سال کمی کا ایک ریکارڈ ہے جس سے بڑے پیمانے پر صنعتوں کی بندش کا پتا چلتا ہے۔ سٹیل سیکٹر کے سرکردہ رہنماؤں نے خدشہ ظاہر کیا کہ فروری سے ملک میں سٹیل کی شدید قلت شروع ہو جائے گی اور سٹیل ری بار کی قیمت 280,000 روپے فی ٹن تک پہنچ جائیں گی۔اس حوالے سے پاکستان ایسوسی ایشن آف لارج سٹیل پروڈیوسرز(پی اے ایل ایس پی) نے ایک بار پھر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سٹیل سیکٹر کو ایل سیز پر پابندی کے باعث پیدا ہونے والے بحران سے نکالنے میں مدد دی جائے۔

یہ شعبہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور برآمدات میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ پی اے ایل ایس پی کی قیادت نے موجودہ بحرانی صورتحا ل کے سلسلہ میں منعقدہ ایک ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم شفاف انداز میں کام کر رہے ہیں اور ہماری تنظیم دستاویزی مینوفیکچررز کی نمائندگی کر تی ہے۔ میٹنگ میں لانگ سٹیل انڈسٹری کے سرکردہ اداروں نومی سٹیلز، نویناسٹیلز، مغل سٹیلز، امریلی سٹیلز، آغا سٹیل انڈسٹریز، ایف ایف سٹیلز، فیضان سٹیلز، کراچی سٹیلز، اتحاد سٹیلز، فضل سٹیلز، پاک آئرن، پاک سٹیل، کامران سٹیل اور عزیز انڈسٹریز کے مالکان اور اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی۔ پی اے ایل ایس پی کی قیادت نے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، ایل سی کھولنے پر پابندی، روپے کی گرتی ہوئی قدر، مہنگائی کے زبردست دباؤ، لیکویڈیٹی کی کمی اور پیداواری لاگت میں نمایاں اضافے پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے پیداواری شعبے کیلئے ایک چیلنج قرار دیا۔