زبان کی حرمت کی تحریکوں میں ادیبوں کا بڑا کردار: پاکستان لٹریچر فیسٹیول جاری

لاہور: الحمراءآرٹس کونسل میں جاری پاکستان لٹریچر فیسٹیول کے دوسرے روز کے پہلے سیشن “اردو فکشن میں نیا کیا “کی صدارت طاہرہ اقبال نے کی جب کہ اویس قرنی ، اخلاق احمد ، ناصر عباس نیر، ضیاءالحسن اور حفیظ خان نے اظہار خیال کیا ۔جب کہ آمنہ مفتی نے میزبانی کی ۔ اویس قرنی نے کہا کہ زبان کی حرمت کے لئے چلنے والی تحریکوں میں ہر خطے کے ادیبوں کا بڑا کردار ہے ۔

اخلاق احمد نے کہا کہ ناول اور افسانہ لکھنے والوں نے بہت ہی مشکل راہ اپنائی ہے ۔ یہ مختصر مدت کا نہیں سال بہ سال کا کورس ہوتا ہے۔ یہ ایسا کٹھن کام ہے کہ بعض اوقات ایک اچھا نقاد ایک شہر میں صرف ایک شخص کو اچھا افسانہ نگار گر دانتا ہے۔ ناصر عباس نیر نے کہا کہ نئے فکشن پر اگر نگاہ ڈالی جائے ۔ووسمجھ میں آتی ہے کہ اس کا آغاز ترقی پسند تحریک کے ساتھ ہوا ۔ہمارے ہاں دو نقطہ نظر سے متاثر ادیب ہیں تا ہم انتظار حسین نے فکشن کی اصطلاح کو رد کر کے نئی کہانیوں پر زور دیا ۔ ضیاءالحسن نے کہا کہ اردو ادب میں نیا دیکھنے کے لئے دیکھنا ہوگا کہ عالمی ادب میں نیا کیا ہے ۔

نئے ادب کا موضوع دراصل آج کے دور کا انسان ہے ۔ جو ترقی یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تباہی کا بھی شکار ہے ۔ نئے دور کے انسان کو آج کے ناول نے مخاطب کیا ۔اسلئے ہمیں فکشن میں نیا محسوس ہوتا ہے ۔حفیظ خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اردو ناول کی عمر 160 اور افسانے کی عمر 120سال ہے ۔ 160 سال پہلے سٹیم انجن کا دور تھا اور اب ہم بلیٹ ٹرین کے دور میں ہیں ۔

لہذا ناول اور افسانے کا موضوع بھی بدل گیا ہے ۔ ادب کا فیصلہ کہ وہ کیا ہے اور اس میں نیا کیا ہے قاری زیادہ بہتر کر سکتے ہیں۔ دریں اثنا تین روزہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول کے دوسرے روزمیں “اکیسویں صدی میں پنجابی ادب “کےسیشن میں زاہد حسین ، ڈاکٹر صغریٰ صدف اور کرامت مغل نے گفتگو کی ۔ شاعری پر رخشندہ نوید اور علی عثمان باجوہ شرکاءگفتگو تھے ۔نظامت کے فرائض رشم جمیل پال نے انجام دیے ۔ زاہد حسین نے کہا کہ پنجابی زبان کا سفراتنا ہی طویل ہے جتنی اس کی تہذیب پرانی ہے۔

ڈاکٹر کرامت مغل نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجابی زبان کے اندر اخلاقیات پر زور دیا گیا ہے ۔ آج کے نئے لکھنے والوں کو پلاک (پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر)کے تعاون سے بہت سر پرستی ملتی ہے۔ رخشندہ نوید نے ایسے موضوعات کو نوجوانوں کے سامنے لانے پر آرٹس کونسل کی کاوشوں کو سراہا ۔علی عثمان باجوہ نے کہا کہ اس صدی کے لکھنے والوں کو نیا پن لانے کی ضرورت ہے ۔ڈاکٹر صغریٰ صدف نے پنجابی زبان کو سکول کی سطح پر لازمی مضمون کا درجہ دینے پر زور دیا۔

پاکستان لٹریچر فیسٹیول میں دوسرے روز تیسرے سیشن ” عوامی دانشوری کی روایت” کا انعقاد ہال نمبر تین میں کیاگیا، صدارت افتخار عارف نے کی ، اظہارِ خیال کرنے والوں میں سینئر صحافتی غازی صلاح الدین، ناصر عباس نیئر اور اُسامہ صدیق شامل تھے ۔ جعفر احمد نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ صدارتی خطبہ میں افتخار عارف نے کہاکہ ہمارے ہاں خیالات تخلیق نہیں ہورہے ۔ جب تک عوام اور خلق خدا کے ساتھ کوئی جگت نہ ہو تو آپ کتنے ہی بڑے سکالر کیوں نہ ہوں منسوخ کردیے جائیں گے ۔ جنہوں نے خلق خدا کے فیصلے کو نہیں مانا وہ تاریخ میں بے نقاب اور منسوخ ہوئے۔ 50برسوں میں ہماری کسی جامعات اور ادب سے کوئی بڑا دانشور نہیں نکلا۔ بلوچستان جیسے صوبے میں سبط حسن کا حلقہ اثر بہت وسیع ہے ۔

فکر انگیز گفتگو کرنے والے میڈیا کے نمائندے دانشور نہیں ہوسکتے۔ ناصر عباس نیر نے کہاکہ ہمیں اپنے ذہن کو کشادہ کرنا ہوگا۔ بلاشبہ تخلیق، شاعری اور ادب پر بہت کام ہوا مگر ہمیں کوئی بتانے والا نہیں کہ سوسائٹی میں کیا ہورہا ہے۔ غازی صلاح الدین نے کہاکہ کتابیں ہمارا ہتھیار ہیں۔ ہم اجتماعی مسائل کا حل ذاتی طور پر دیکھتے ہیں ۔

اُسامہ صدیق نے کہاکہ اقبال جیسے لوگ صدیوں میں پیداہوتے ہیں۔ نوجوان نسل کو کتابوں کے قریب لانا ہوگا۔ ہمیں ماڈرن ازم اور سوشل میڈیا سے وابستہ ہونا پڑے گا ۔ پاکستان لٹریچر فیسٹیول کے دوسرے روزمیں “احمدبشیرکے کنبہ”کے موضوع پر زارا نورعباس ، نیلم احمد بشیراور اسما ءعباس نے گفتگو کی۔ جبکہ اجلاس کے نظامت کے فرائض بشریٰ انصاری نے انجام دیے۔

اس موقع پرزارا نور عباس نے کہا اس زمانے میں احمد بشیر کی سمجھ کسی کو نہیں آئی ۔ہم احمد بشیر کے کنبے سے ہیں ۔نیلم احمد بشیر نے کہا کہ اس وقت ملک کی جو حالت ہے اس میں امن کی بات کرنی چاہیے۔

بشری انصاری نے کہا کہ ہماری ابا کی آواز میں نرمی اور محبت تھی ہم نے ان سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھا۔ نیلم اور احمدعباس نے گانے گائے۔