شوکت احمد صدیقی کا شمار پاکستان کے مشہور و معروف ڈرامہ نگار ، ناول نگار اور صحافی میں ہوتا ہے۔ اُن کو ناول “خدا کی بستی ” اور “جنگلوس”نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ۔”خدا کی بستی “کے 42 زبانوں میں ترجمے کیے گئے۔
پی ٹی وی کا پرانا اور مشہور ڈرامہ “وارث ” کا مرکزی کردار “جنگلوس “سے لیا گیا ہے ۔جو عوام کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے ۔
اگر ہم شوکت احمد کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بات کرے تو آپ 20 مارچ 1920 کو ہندوستان کے شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم آبائی شہر لکھنؤ سے حاصل کی۔1994 میں بی-اے کے بعد پولیٹیکل سائنس میں اںم اے کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازا تقسیم ہندکے بعد ہجرت کرکے لاہور اور پھر کراچی میں مستقل طور پر قیام پذیر ہوگئے۔
ادبی سفر میں تو انھوں نے” خدا کی بستی” اور “جنگلوس”کے علاوہ 2 ناول اور 8 افسانے تحریر کیے۔اپ کی پہلی تصنیف ‘کون کیسی کا’ ہے .جو ایک مختصر کہانی ہے۔ یہ لاہور کے ہفتہ وار “خیام” میں شائع ہوئی. آپ کے مجموعے میں” تیسرا آدمی”, “اندھیرا ڈور اندھیرا” ،” راتوں کا شہر” ,گمیا گر “اور “چار دیواری”شامل ہے ۔اپ کی تمام تحریروں میں حقیقت پسندی کا عنصر نمایاں رہا۔جو کامیابی اصل وجہ بنا۔
۔سیاست اور صحافت سے بھی شوکت صدیقی کا بہت گہرا تعلق رہا ۔وہ اپنے دور کے ایک معتبر اور کامیاب صحافی تھے ۔سیاستدانوں میں پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو سے نہایت اچھےتعلقات رہے جس کی وجہ سے ان کے ساتھ کہی غیر ملکی دورے بھی کے۔
آپ کی صحافتی زندگی بھی کامیابیوں سے ہمکنار رہی۔آپ “پاکستان رائٹرز گلڈ ” اور “رائٹرز ایسوسی ایشن” کے رکن بھی رہے ۔” کراچی نیوز ٹائمزز”, “پاکستان اسٹینڈرڈ ” اور” مارننگ جنگ نیوز ” کے نیوز ڈیسک سے اپنے فرائض سر انجام دیے۔ اس کے علاوہ مختلف اخبارات میں ایڑیڑ کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ جس میں” روزنامہ انجم”٫” ہفتہ وارفتح” اور “روزنامہ مساوات ” شامل ہے ۔ صحافت میں طویل عرصہ کام کرنے کے بعد 1984 میں اس شعبہ کو الوداع کہہ دیا ۔
۔آپ کو اعلی خدمات کے نتیجے 1960 کو ” آدم جی ایواڈ “اور حکومت پاکستان کی جانب سے 2003 کو ادب میں ” کمال فن” کے ایواڈ دیےگئے۔
۔۔شوکت صدیقی 83سال کی عمر میں 18 دسمبر 2006کو کراچی میں اس دنیا فانی سے کوچ کر گے ۔وہ کافی عرصے سے دل کے عارضے میں مبتلا تھے ۔ لیکن
ان کی ادبی اور صحافتی خدمت تاحیات عوام کے دلوں میں زندہ رہیں گی۔