سندھ اسمبلی کے 100سے زائد ارکان ساڑھے 4 سال سے خاموش !

کراچی: سندھ اسمبلی کے 168میں سے 100سے زائد ارکان ایسے ہیں جنھوں نے چارسال 6ماہ کے دوران اپنے حلقے کے عوام کے مسائل ،سندھ کے کسی محکمے اور علاقے کی مجموعی صورتحال اور صوبائی محکموں کی کارکردگی سے متعلق کوئی تحریری سوال سندھ حکومت کے کسی محکمے سے کیا ہی نہیں۔

13اگست 2018کو وجود میں آنے والی موجودہ سندھ اسمبلی کو 50سے کم ارکان سندھ اسمبلی کی جانب سے تحریری سوالات موصول ہوئے جن میں سےنصف سے زائد محکموں نے چار سال کے دوران ان سوالات کے جواب تک سندھ اسمبلی سیکرٹریٹ کو ارسال ہی نہیں کئے۔،سندھ کے عوام کے نمائندوں کے سب سے بااختیار اور سپریم ایوان یعنی سندھ اسمبلی میں مفاد عامہ کا ذکر گورننس پر حکومت سے باز پرس،سوالات کےزریعے حکومتی محکموں کی کارکردگی سے آگاہی کا ذکر ہی کم ہوتاجارہاہے۔

قواعد کے تحت کوئی بھی رکن اسمبلی حکومتی محکموں سے متعلق تحریری سوالات کے ذریعے معلومات حاصل کرسکتا ہے اور متعلقہ محکمے کا وزیر یا پارلیمانی سیکرٹری ایوان میں سوال کا جواب دینے پابند ہے۔موجودہ سندھ اسمبلی کےچار پارلیمانی سال مکمل ہوچکے ہیں جبکہ آخری پارلیمانی سال کا بھی نصف حصہ گزر چکا ہے۔

پیپلزپارٹی کے 99ارکان میں سےصرف 10سے 12ارکان ایسے ہیں جنھوں نے صوبائی محکموں سے سوالات کئے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک رکن نے تحریری سوالات جمع کرانے اور ضمنی سوال پوچھنے پر ناراضگی تک کا اظہار کردیاتھا سندھ اسمبلی میں ایم کیوایم ارکان کی تعداد اکیس ہے جن میں سے 16ارکان کی جانب سے تحریری سوالات کئے گئے۔تحریک انصاف کے30ارکان سندھ اسمبلی میں سے 9ارکان جن میں اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ بھی شامل ہیں نے اپنے حلقے،عوام یا گورننس سے متعلق کوئی سوال جمع نہیں کرایا۔

سندھ اسمبلی کو تحریک لبیک کی خاتون رکن کے علاوہ باقی دو ارکان مفتی قاسم فخری یونس سومرو کی جانب سے اپنے حلقوں سےمتعلق یا مفاد عامہ میں کوئی سوال محکموں کو بھیجنے کی اطلاع نہیں جی ڈی اے کے سندھ اسمبلی میں 14ارکان ہیں ۔8ارکان کے پاس اپنے حلقوں سے متعلق کوئی سوال سندھ حکومت سے پوچھنے کے لیے نہیں تھا۔

سندھ کے مختلف محکموں سے متعلق تحریری سوالات پوچھنے والوں میں سندھ اسمبلی کی خواتین ارکان زیادہ ہیں ۔جی ڈی اے کی نصرت سحر عباسی ایم کیوایم کی رعنا انصار اور پی ٹی آٗئی کی سیما ضیا رابعہ اظفر کے زیادہ سوالات جمع ہوئے ۔

سندھ اسمبلی سیکرٹریٹ کو مختلف محکموں کو بھیجے گئے8300سوالات میں سے صرف 3ہزار کے جواب موصول ہوئے جبکہ پانچویں پارلیمانی سال کے اختتام تک سندھ کے مختلف صوبائی محکموں کی جانب سے ان باقی ماندہ 5000سوالات کے جوابات آنا اور ایوان میں پیش ہونا ناممکن ہے۔