Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the insert-headers-and-footers domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/zarayeco/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
3 رکنی بینچ پر عدم اعتماد، حکومتی اتحاد نے عدالتی کارروائی ختم کرنے کا مطالبہ کردیا |

3 رکنی بینچ پر عدم اعتماد، حکومتی اتحاد نے عدالتی کارروائی ختم کرنے کا مطالبہ کردیا

اسلام آباد :حکومتی اتحاد نے الیکشن التواکیس کی سماعت کرنے والے 3 رکنی بینچ پر عدم اعتماد کرتے ہوئے عدالتی کارروائی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے کیس پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ لاہور میں ہونے والا اجلاس 3گھنٹے سے زائد جاری رہا، اجلاس میں آصف زرداری، بلاول بھٹو ، مولانا فضل الرحمان، چودھری سالک حسین، مریم نواز اور دیگر قائدین شریک ہوئے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔

وزیر اعظم کی معاونت کیلئے وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ، عطااللہ تارڑ، ملک احمد خان و دیگر رہنما اجلاس میں شریک ہوئے، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے شرکا کو سپریم کورٹ میں انتخابات کے حوالے سے کیس پر تفصیلی بریفنگ دی ۔اجلاس میں ملکی سیاسی اور آئینی صورتحال خصوصی طور پر سپریم کورٹ میں پیدا شدہ صورتحال، پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات پر بھی مشاورت کی گئی اور قانونی چارہ جوئی سمیت مختلف آپشنز پر غور کیا گیا۔نواز شریف نے کہا فل کورٹ بنے تو ٹھیک ورنہ بائیکاٹ کر دیا جائے۔

ذرائع کے مطابق اجلاس کے شرکا نےکہا فل کورٹ تمام جماعتوں کا مشترکہ اور متفقہ مطالبہ ہے، فل کورٹ کا مطالبہ نہ تسلیم کئے جانا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے یکطرفہ فیصلہ آنے کی صورت میں تمام اتحادی جماعتوں کا مشترکہ لائحہ عمل اپنانے پر اتفاق رائے کیاگیا۔ذرائع کے مطابق اجلاس کے شرکا کو وفاقی وزیر قانون نے بائیکاٹ کے فیصلے کے مضمرات سے بھی آگاہ کیا۔

اجلاس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف اور نواز شریف کے درمیان مشاورت بھی ہوئی۔ سابق وزیر اعظم نے کہا تین رکنی بینچ سے انصاف کی امید نہیں، اجلاس میں بائیکاٹ کی تجویز رکھی جائے، اتحادی جماعتوں اور قانونی ماہرین سے مشورے کے بعد بائیکاٹ کا حتمی فیصلہ کیا جائے۔

اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے افسوسناک امر ہے چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں،یہ طرز عمل ملک میں سنگین آئینی وسیاسی بحران ہی نہیں بلکہ آئین اور مروجہ قانونی طریقہ کار سے انحراف کی واضح مثال ہےجو ریاست کے اختیارات کی تقسیم کے بنیادی تصور کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے،سپریم کورٹ کو آئین کے تحت ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔

اجلاس چیف جسٹس کی سربراہی میں3 رکنی بینچ پر عدم اعتماد کرتا ہے، ملک بھر میں ایک ہی دن انتخاب ہونے چاہئیں، یہ شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کا بنیادی دستوری تقاضا ہے، اس سے انحراف ملک کو تباہ کن سیاسی بحران میں مبتلا کردے گا،یہ صورتحال ملک کے معاشی مفادات پر خود کش حملے کے مترادف ہو گی، لشکر اور جتھوں سے ریاستی اداروں پر حملہ آور ایک جماعت کے دبا ئوپر پورے ملک میں مستقل سیاسی وآئینی بحران پیدا کرنے کی سازش کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی، بدقسمتی سے ایک انتظامی معاملے کو سیاسی وآئینی بحران بنادیاگیا ،معاشی، سکیورٹی، آئینی، قانونی اور سیاسی امور کو نظر انداز کرنا ریاستی مفادات سے لاتعلقی کے مترادف ہے، خاص مقصد اور جماعت کو ریلیف دینے کی عجلت سیاسی ایجنڈا دکھائی دیتا ہے، یہ آئین وقانون اور الیکشن کمیشن کے اختیار کے بھی منافی ہے، آئین کے آرٹیکل218(3) و دیگر دستوری شقوں کے تحت انتخاب کرانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، سپریم کورٹ کو آئین کے تحت ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

اجلاس تقاضا کرتاہے ازخود نوٹس کے4 رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے،سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں بنچ نے 184(3 ) کے تحت تمام مقدمات کی سماعت روکنے کا حکم دیا ، متضاد عدالتی فیصلوں سے ناقابل عمل اور پیچیدہ صورتحال پیدا ہوچکی،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینچ کے فیصلے کا احترام کرنا بھی سب پر لازم ہے، پاکستان بار کونسل اور دیگر بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے آرٹیکل 209کے تحت دائر کردہ ریفرنسز پر کارروائی کی جائے، جسٹس اعجاز الاحسن تو پہلے ہی اس مقدمے میں رضا کارانہ طورپر بینچ سے الگ ہوچکے تھے لہٰذاوہ موجودہ بنچ کا حصہ نہیں ہوسکتے، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے آرڈرز واضح ہیں ، یہ سب کچھ ریکارڈ پر بھی موجود ہے، چیف جسٹس سپریم کورٹ کے بینچز میں اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو ادارے کے سربراہ کے طورپر سنیں اور فی الفور فل کورٹ اجلاس کا انعقاد کریں تاکہ ون مین شو کا تاثر ختم ہو، اعلی ترین عدالت کی سوچ میں تقسیم واضح نظر آرہی ہے لہٰذاعدالت عظمی کو متازعہ سیاسی فیصلے جاری کرنے سے احتراز کرنا چاہیے، چیف جسٹس اور بعض دیگر ججوں سے متعلق یہ تاثر بھی ختم کیاجائے کہ وہ تحریک انصاف کے معاملےخصوصی امتیازی رویہ اپنا رہے ہیں، سیاستدانوں کو مل کر بیٹھ کر فیصلے کرنے کی ہدایت کرنے والے خود تقسیم ہیں ، انہیں اپنے اندر بھی اتحاداور اتفاق پیدا کرنا چاہیے۔اجلاس نے آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر تین رکنی فیصلے کو سیاسی عدم استحکام کاباعث قرار دیا جس کے ذریعے آئین کو ری رائٹ کیاگیا۔

اجلاس نے پارلیمنٹ کی حالیہ قانون سازی کی بھرپور تائید کی اور کہا اس قانون سازی سے انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کردی گئی ہیں جبکہ عوام الناس کیساتھ یکطرفہ انصاف کی روش کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں داد رسی کا حق دیاگیا ہے جو فطری انصاف اور آئین کی بنیادی منشا ہے ، پارلیمنٹ ایک بالادست ادارہ ہے جس کی رائے کا سب کو احترام کرنا چاہیے۔ اجلاس نے ا میدظاہر کی کہ صدر مملکت اس قانون سازی کی راہ میں جماعتی وابستگی کی بنیاد پر رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملکی معاشی صورتحال پر بریفنگ دی۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اتحادیوں کےاجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا پنجاب، خیبرپختونخوا الیکشن سےمتعلق کیس زیر سماعت ہے، اس کیس کے دوران 2 ججز نے مقدمے سے لاتعلقی کا اظہارکیا، 5رکنی بینچ اب 3 رکنی بینچ تک محدود ہو گیا ، ججز کے علیٰحدہ ہونے سے قوم ابہام کا شکار ہوئی، چیف جسٹس بضد ہیں اس کیس کو ہر قیمت پر سننا ہے ،ایسی صورتحال میں سیاستدان ، پارلیمنٹ اور عوام کیا رائے قائم کرے، ہماری نظر میں سپریم کورٹ اور موجودہ بینچ اس کیس میں واضح طور پر فریق کا کردار ادا کر رہا،ہمیں اس عدالت پر کوئی اعتماد نہیں رہا،چیف جسٹس ہو ں یا انکے ساتھ شریک دو معزز جج صاحبان کی جانبدارانہ روش نے سپریم کورٹ کو تقسیم کردیا، چند ججز واضح طور پر عمران خان کو ریلیف دینا چاہتے ہیں، انکی پارٹی کے موقف کو ہر قیمت میں جتوانا چاہتے ہیں، اخلاقی طور پر چیف جسٹس کو اور انکے دو رفقاء کو اس کیس سے دستبردار ہو جانا چاہیے اور اس معاملہ کو ختم کرنا چاہیے،چیف جسٹس ہمیں نصیحت کر رہے اس معاملہ کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہئے اور خود انہوں نے معزز عدالت کو تقسیم کردیا ہے، از خود نوٹس کیس چار اور تین سے مسترد ہوچکا ہے لہذا اس پر اب دوبارہ سماعت کی کوئی حیثیت نہیں رہی، احتیاط سے کام لیا جائے ، فریق بن کر کردار نہ ادا کیا جائے، سپریم کورٹ کو متحد اور غیر جانبدار رہنے دیا جائے ، 2018 کےالیکشن پر عدم اعتماد کیا گیا، اس وقت از خود نوٹس کیوں نہیں لیاگیا، دھاندلی کے دو بڑے مجرم آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں، آج بھی ان مجرمان کیخلاف کوئی ازخودنوٹس نہیں لیاجارہا، ہم عمران خان کیساتھ الیکشن کی تاریخ سے متعلق کسی قسم کے مذاکرات کا حصہ بنیں گے نہ ہی کسی مجرم کے ساتھ مذاکرات کریں گے، جس کو دھاندلی کے ذریعے لایا گیا تھا۔