Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the wordpress-seo domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/zarayeco/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
صدر علوی نے عدالتی اصلاحات بل نظر ثانی کے لئے واپس کردیا |

صدر علوی نے عدالتی اصلاحات بل نظر ثانی کے لئے واپس کردیا

اسلام آباد: صدر مملکت عارف علوی نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا پاس کیا ہوا، عدالتی اصلاحات بل 2023ء نظر ثانی کے لیے واپس بھجوا دیا۔صدر کا کہنا ہے کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے، بل قانونی طور پر مصنوعی، ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے
عارف علوی نے کہا کہ میرے خیال میں اس بل کی درستگی کے بارے میں جانچ پڑتال پوری کرنے اور دوبارہ غور کرنے کے لیے واپس کرنا مناسب ہے، آئین سپریم کورٹ کو اپیل، ایڈوائزری، ریویو اور ابتدائی اختیار سماعت سے نوازتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مجوزہ بل آرٹیکل 184 تین، عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت، سے متعلق ہے، مجوزہ بل کا مقصد ابتدائی اختیار سماعت استعمال کرنے اور اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرنا ہے۔
صدر مملکت نے سوال کیا کہ یہ خیال قابل تعریف ہو سکتا ہے مگر کیا اس مقصد کو آئین کی دفعات میں ترمیم کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے؟۔ان کا کہنا ہے کہ تسلیم شدہ قانون تو یہ ہے کہ آئینی دفعات میں عام قانون سازی کے ذریعے ترمیم نہیں کی جاسکتی، آئین ایک اعلیٰ قانون ہے، قوانین کا باپ ہے، آئین کوئی عام قانون نہیں بلکہ بنیادی اصولوں، اعلیٰ قانون اور دیگر قوانین سے بالاتر قانون کا مجسمہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کارروائی اور طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کے لیے قوانین بنانے کا اختیاردیتا ہے، آئین کی ان دفعات کے تحت سپریم کورٹ رولز 1980ء بنائے گئے جن کی توثیق خود آئین نے کی، سپریم کورٹ رولز 1980ء پر سال 1980ء سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔صدر نے کہا کہ جانچ شدہ قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کارروائی، خود مختاری اور آزادی میں مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے، ریاست کے تین ستونوں کے دائرہ اختیار، طاقت اور کردار کی وضاحت آئین نے ہی کی ہے، آرٹیکل 67 کے تحت پارلیمان کو آئین کے تابع رہتے ہوئے اپنے طریقہ کار اور کاروبار کو منظم کرنےکے لیے قواعد بنانے کا اختیار حاصل ہے۔
عارف علوی کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 191 کے تحت آئین اور قانون کے تابع رہتے ہوئے سپریم کورٹ اپنی کارروائی اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے قواعد بنا سکتی ہے، آرٹیکل 67 اور 191 ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، آرٹیکل 67 اور 191 قواعد بنانے میں دونوں کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 67 اور 191 دونوں اداروں کو اختیار میں مداخلت سے منع کرتے ہیں، عدلیہ کی آزادی کو مکمل تحفظ دینے کے لیے آرٹیکل 191 کو دستور میں شامل کیا گیا، آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے باہر رکھا گیا، پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار بھی آئین سے ہی اخذ شدہ ہے۔
صدر نے کہا کہ آرٹیکل 70 وفاقی قانون سازی کی فہرست میں شامل کسی بھی معاملے پر بل پیش کرنے اور منظوری سے متعلق ہے، آرٹیکل 142 اے کے تحت پارلیمنٹ وفاقی قانون سازی کی فہرست میں کسی بھی معاملے پر قانون بنا سکتی ہے، فورتھ شیڈول کے تحت پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے علاوہ تمام عدالتوں کے دائرہ اختیار اور اختیارات پر قانون سازی کا اختیار ہے۔عارف علوی کا یہ بھی کہنا ہے کہ فورتھ شیڈول کے تحت سپریم کورٹ کو خاص طور پر پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار سے خارج کیا گیا ہے، بل بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، بل کے ان پہلوؤں پر مناسب غور کرنے کی ضرورت ہے۔