پی ایس ایف کراچی کی جانب سے ’قائد طلبا‘شہید نجیب کی 33ویں برسی پر پیپلز پارٹی سیکرٹریٹ میں دعائیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں شرکا کیلیے افطار ڈنر کا اہتمام بھی تھا۔
تقریب میں مشیر قانون اور سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضی وہاب نے خصوصی طور پر شرکت کی جبکہ سعید غنی، شہلا رضا، نجمی عالم، اور پی ایس ایف کے صدر منصور شاہانی، مدنی رضا اور دیگر بھی موجود شریک تھے۔
بیرسٹر مرتضی وہاب نے پی ایس ایف کے قائد طلبا شہید نجیب احمد کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگوں کی عمریں کم مگر کام بڑے ہوتے ہیں، شہید نجیب بھی انہی خوش نصیبوں میں سے ہیں جو بڑے کام کرکے ہمیشہ دلوں میں زندہ رہ گئے۔
انہوں نے کہا کہ شہید نجیب نے طلباء کے مسائل کے حل میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا، ہم شہید بھٹو اور شہید بی بی کے فلسفہ پر تازندگی عمل کرنے کا عزم کرتے ہیں اور اس فلسفہ کو تمام طلباء تک پہنچائیں گے۔
تقریب کے اختتام پر نجیب احمد کی یاد میں دیے بھی روشن کیے گئے اور شرکا نے ان کی خدمات پر انہیں شاندار انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔
نجیب احمد کا قتل
واضح رہے کہ نجیب احمد کو گیارہ اپریل 1990 کو گھات لگائے مسلح افراد نے فائرنگ کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوئے اور اسپتال میں دم توڑ گئے تھے۔ پیپلزپارٹی نے اس قتل کا الزام اُس وقت کے اے پی ایم ایس او کے صدر خالد بن ولید اور اُن کے ساتھیوں پر عائد کیا تھا۔
پی ایس ایف کا دعویٰ ہے کہ نجیب احمد کی شہادت کے بعد بھی ایک ایک کرکے کراچی کے تعلیمی اداروں میں پی ایس ایف کے سرگرم کارکنوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا اور ان کے سب کے پیچھے بھی اے پی ایم ایس او کے مرکزی صدر کا ہاتھ تھا جو مبینہ طور پر ڈیتھ اسکواڈ کا سربراہ تھا۔
نجیب احمد کون ؟
نجیب احمد 17 نومبر 1963ء کو کراچی کی یو پی سے ہجرت کرکے آنے والے متوسط طبقے کے ایک اردو بولنے والے خاندان میں پیدا ہوا- نجیب کا خاندان کراچی کی تعلیم یافتہ درمیانے طبقے کی اس برادری سے تعلق رکھتا تھا جس کی بہت بڑی تعداد 1976ء میں بنی پاکستان پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئی تھی۔
اس کے خاندان نے پی پی پی کو اچھے اور برے دونوں وقتوں میں ساتھ رکھا۔ نجیب احمد جوان رعنا تھے جب ملک میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا لگا اور نتیجے میں ذالفقار علی بھٹو کو پھانسی پہ جڑھادیا گیا۔ کراچی شہر پی پی پی کے حوالے سے 1977ء کی پی این اے کی تحریک کے وقت دائیں بازو کی رجعت پسندی کے آگے جھک گیا مگر نجیب احمد کا خاندان جس لسانی کمیونٹی سے رکھتا تھا، اس کمیونٹی کے درمیانے طبقے کی بھٹو سے نفرت انتہائی شدید ہوچکی تھی- خاص طور پہ نچلے متوسط طبقے میں اینٹی بھٹو کیمپ غالب تھا۔
لیکن نجیب کے خاندان نے بھٹو خاندان سے اپنا تعلق اور رشتہ ختم نہ کیا۔ نجیب احمد مارشل لا دور ميں پی ایس ایف کے پلیٹ فارم سے متحرک رہا اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوا کر بے باکی کے ساتھ پی ایس ایف کو لیڈ کیا۔