Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the wordpress-seo domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/zarayeco/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
سیاسی کارکنان کی بازیابی، ’الحمد اللہ بیٹا واپس آگیا‘ |

سیاسی کارکنان کی بازیابی، ’الحمد اللہ بیٹا واپس آگیا‘

کراچی اور شہری سندھ میں مقبول سمجھی جانے والی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان متعدد بار اپنے کارکنان کی جبری گمشدگی کا دعویٰ کرچکی ہے اور ریکارڈ کے مطابق متحدہ کے اب لاپتہ کارکنان میں سے چند ہی باقی ہیں جو مبینہ طور پر کسی ادارے کی تحویل میں ہیں۔

ایم کیو ایم کی جانب سے اپنے لاپتہ کارکنان کی بازیابی کیلیے عدالتوں میں درخواستیں دائر ہیں جبکہ گمشدہ افراد کے اہل خانہ بھی اپنے پیاروں کی واپسی کیلیے قانونی راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں تاہم اس میں کوئی بڑی پیشرفت نہیں ہوئی تھی مگر 23 مارچ 2016 کو متحدہ کے سابق و باغی رہنما مصطفیٰ کمال کے پاک سرزمین پارٹی بنانے کے بعد گمشدہ یا لاپتہ افراد کی بازیابی کا سلسلہ شروع ہوا۔

اس کے بعد جب متحدہ اور پاک سرزمین میں انضمام ہوا تو لاپتہ افراد کی بازیابی کا سلسلہ ایک بار پھر سے شروع ہوا اور عید کی چاند رات سے دوسرے روز تک کارکنان بازیاب ہوکر آتے رہے۔

سالوں سے لاپتہ کارکنان ’نامعلوم مقام‘ سے بازیاب ہوکر سیدھے ایم کیو ایم پاکستان کے عارضی مرکز بہادر آباد پہنچے جہاں انہیں تنبہی کے بعد اہل خانہ کے حوالے کیا گیا۔ سالوں بعد اپنے پیاروں کی زندہ واپسی پر اہل خانہ نہ صرف خوش ہوئے بلکہ اس کا اظہار بھی کیا۔

متحدہ کے کارکنان کی واپسی اور اہل خانہ سے ملاقات کے وقت جذباتی مناظر تھے، اہل خانہ اپنے پیاروں کو گلے لگا کر روتے رہے جبکہ ماؤں نے بھی اپنے بچوں کو سینے سے لگا کر بھرپور انداز سے ویلکم کیا۔

بازیاب ہونے والے کارکنان کے اہل خانہ نے ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت اور بالخصوص مصطفیٰ کمال و انیس قائم خانی کا تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کیا۔ ذرائع کو ملنے والی اطلاع کے مطابق مذکورہ کارکنان کو بغیر کسی شرط کے رہائی نصیب ہوئی ہے۔

اب تک کتنے کارکنان کی واپسی ہوئی؟

ایم کیو ایم میں دیگر دھڑوں کے انضمام کے بعد یعنی بیس جنوری کے بعد سے اب تک 20 کارکنان بازیاب ہوئے ہیں جس کے بعد بازیاب ہونے والے کارکنان کی تعداد 530 تک پہنچ گئی ہے۔

مذکورہ کارکنان کو مبینہ طور پر مختلف جرائم، ایم کیو ایم لندن و بانی متحدہ کیلیے کام کرنے سمیت ریاست مخالف سرگرمیوں پر لاپتہ یا حراست میں لیا گیا تھا۔ جن کے اہل خانہ اپنی پریشانی لے کر مسلسل ایم کیو ایم قیادت سے رابطے کررہے تھے اور اپنے پیاروں کی زندگی کی بھیک مانگ رہے تھے۔

یہ بھی یاد رہے کہ ایسا پہلا موقع نہیں بلکہ پاک سرزمین پارٹی کے وجود میں آنے کے بعد مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی کوششوں سے ایم کیو ایم کے متعدد اسیر اور لاپتہ کارکنان کی واپسی ہوئی تھی۔

سوشل میڈیا پر سوالات

ایم کیو ایم کے کارکنان کی واپسی پر سوشل میڈیا سوالات اٹھائے جارہے ہیں، صارفین نے سوالات اٹھائے ہیں کہ مذکورہ کارکنان کو کہاں سے رہائی ملی، انہیں اگر عدالتوں نے رہا کردیا تھا تو یہ جیلوں میں کیوں تھے اور اگر عدالتوں سے اب بری ہوئے تو کس طرح سے ہوئے؟۔

دوسری جانب واپس آنے والے کارکنان کے اہل خانہ ان سوالات پر نہ صرف غصہ ہیں بلکہ ان میں سے ایک نے نام ظاہر نہ ہونے کی شرط پر اپنا جواب دیا اور کہا کہ

‘جو اپنا تعلق پاکستان سے جوڑنا پسند نہیں کرتا تو ہم کیوں تعلق رکھیں’

’ہمارے بچے جس کے چکر میں اٹھائے گئے جب وہ اپنا تعلق پاکستان سے جوڑنا پسند نہیں کرتا تو ہم کیوں ایسا تعلق رکھیں اور اپنے بچوں کو جانے دیں، ہم نے جن مشکلات کا سامنا کیا وہ سوالات کرنے والوں کیلیے کچھ بھی نہیں کیونکہ ہم اپنے کٹھن رات اور دن کے بارے میں جانتے ہیں‘۔

خاتون نے کہا کہ ’جب ہمارے بچے اٹھائے گئے تو اُن سے لاتعلقی اختیار کی گئی اور بعد میں رابطہ کرنے پر لندن سے ہمیں جھڑک دیا گیا اور نہ ہی کسی نے کسی بھی قسم کی کوئی مدد کی، ایسے میں میرے پاس اپنے بچے کی زندگی کی بھیک مانگنے اور اُس کی باحفاظت واپسی کیلیے جو راستہ تھا میں نے اختیار کیا‘۔

’اب اس واپسی یا راستہ اختیار کرنے پر کوئی کچھ بھی بولے مجھے پرواہ نہیں ہے کیونکہ کسی کو میرے درد کا احساس نہیں اگر ہے تو وہ ایک منٹ کیلیے خود ماں بن کر سوچ لے اور دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے وہ کیا کرتا، الحمد اللہ میرا بیٹا واپس آگیا ہے‘۔

قبل ازیں چند روز قبل ایم کیو ایم لندن نے دعویٰ کیا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے ڈپٹی کنونیئر انیس قائم خانی نے سینٹرل جیل کا دورہ کیا اور کارکنان کو وفاداری تبدیل کرنے کی پیش کش کی جبکہ نہ ماننے پر اہل خانہ سمیت اسیروں کو دھمکیاں بھی دی گئیں جس پر شدید تحفظات ہیں۔

ذرائع نے جب اس حوالے سے سینٹرل جیل رابطہ کیا تو اس بات کے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے کہ انیس قائم خانی نے رمضان کے آخری عشرے میں سینٹرل جیل کا دورہ کیا۔