کالعدم بلوچستان نیشنل آرمی کے سابق سربراہ گلزار امام شمبے نے کہا ہے کہ میں کئی سالوں سے گرفتار تھا اور مکران ڈویژن کے کمانڈر کے طور پر کام کررہا تھا، مسلح جدوجہد سے قبل بطور صحافی بھی امور انجام دیے۔
دنیا نیوز کے پروگرام ’آن دی فرنٹ‘ میں کامران شاہد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے گلزار شنبے نے بتایا کہ ’میں بطور صحافی ایک اخبار سے وابستہ رہا اور ٹیچنگ کا شوق تھا مگر پھر نہ بن سکتا کیونکہ حالات نے ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا کیونکہ 2001 کے بعد بلوچستان کے متعدد نوجوانوں نے ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد علاقے پاکستان کی فوج کے لیے نوگو ایریا بن گئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ میں 2009 تک مسلح جدوجہد کرتا رہا، اپنے بیوی بچوں، ماں باپ سب کو چھوڑ کر چلا گیا تھا اور مکران ڈویژن میں بطور کمانڈر کام کرتا رہا، اس دوران ریاست کے خلاف انتہا تک پہنچا جس کے بعد میرے حکم پر بم دھماکے اور قتل و غارت ہوئی۔
گلزار نے بتایا کہ 2017 میں بھارت بھی گیا، پھر مجھے احساس ہوا کہ غلط راستے کا انتخاب کیا ہے کیونکہ میں بطور صحافی یا سیاست دان اپنے لوگوں اور صوبے کے لیے اچھے انداز سے آواز اٹھا سکتا تھا، اب ہتھیار اٹھانے اور اپنے ماضی پر بہت شرمندگی ہوتی ہے۔
گلزار شمبے کی گرفتاری نے ثابت کیا آئی ایس آئی نمبر ون انٹیلی جنس ایجنسی ہے ، گلزار شمبے کی گرفتاری کلبھوشن یادیو کے بعد انٹیلی جنس اداروں کی سب سے بڑی کامیابی ! دیکھئے اس ویڈیو میں#DunyaNews #DunyaPrograms #OnTheFront pic.twitter.com/BGC6pf93zH
— Dunya News (@DunyaNews) June 14, 2023
گلزار شمبے نے کہا کہ بلوچستان میں وسائل کےباوجود ڈویلپمنٹ نہیں ہوئی، مسلسل ناانصافیوں کی وجہ سےایسے حالات بنتے ہیں، اس وقت حالات کو دیکھ کر ہتھیار اٹھائے، ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کیا، براہمداغ بگٹی سے کبھی کبھار رابطہ ہوتا تھا۔
ایک سوال پر جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہتھیار چھوڑنے پر والدہ بھی خوش ہوئی، بلوچستان کے مقامی لوگوں کی جانب سے بہت زیادہ زیادتیاں ہوئیں، روایات کے نام پر بلوچستان کوبہت پسماندہ رکھا گیا، آج محسوس کر رہا ہوں جنگیں تباہیاں ہی لاتی ہیں، آج اندازہ ہوا ہے بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے مجھے صحافی بن کر ہی آواز اٹھانی چاہیے تھی۔
گلزار شمبے کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان معدنی وسائل کے حوالے سے مالا مال صوبہ ہے، اس کے بنیادی مسائل کے حوالے سے مذاکرات ہونے چاہئیں، انہوں نے کہا کہ میں ٹھیکیدار بھی رہا ہوں، جب ہرجگہ کرپشن ہو گی تو بہتر سکول، ہسپتال نہیں بنا سکتے، بلوچستان کے سسٹم میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2009ء سے مسلح جدوجہد سے وابستہ رہا، میرے حکم پر قتل اور بم دھماکے ہوئے، ریاست کے خلاف انتہا تک گیا ہوں، عام لوگوں کے مارے جانے کا احساس ہے، مجھ پر کوئی پریشر نہیں دل سے یہ باتیں کر رہا ہوں، ایک سال سے زائد ہوا مجھے چیزوں کا احساس ہوا، میری گرفتاری کا کریڈٹ انٹیلی جنس اداروں کو جاتا ہے، بلوچستان کے کچھ انفارمر بھی ملوث تھے، بلوچستان کے نوجوانوں کو پیغام ہے تعلیم کی طرف توجہ اور ترقی میں اپنا پرامن کردار ادا کریں، ریاست بلوچستان کے نوجوانوں کو حقوق دے۔
کالعدم تنظیم کے سابق سربراہ نے مزید کہا کہ افغانستان میں تو اسلحے کی ہر طرح کی مارکیٹیں ہیں، منشیات کو ضبط کر کے عالمی منڈی میں بیچ کر اسلحہ خریدتے تھے، بلوچستان کے نوگو ایریاز سے آپریٹ کرتے تھے، جب بیمار ہوا تو افغانستان چلا گیا اور وہاں سے بھی آپریٹ کرتے تھے، 2017ء میں بھارت بھی گیا، بھارت افغانستان کے پاسپورٹ پر گیا تھا، ایک بار آگرہ تاج محل دیکھنے گیا تھا۔ گلزار شمبے نے کہا کہ سیاست کرنے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں ہے، پاکستان اور بھارت کو آپس کے اختلافات کو ختم کرنا چاہئیں، پاکستان اور بھارت کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سوچنا چاہیے، جنگوں کے لیے اسلحہ خریدنے کے بجائے پسے ہوئے طبقات کا سوچنا ہوگا، لڑائی سے تباہی کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔
کالعدم تنظیم کے سابق کا کہنا تھا کہ جب جنگ ہوتی ہے تو لوگ مسنگ بھی ہو جاتے ہیں، مسنگ پرسن کا مسئلہ سنجیدہ ہے، اس مسئلے کو حل ہونا چاہیے، جو مسنگ ہیں انہیں عدالتوں میں پیش کرنا چاہیے، مسنگ پرسن اور میرا بھی ٹرائل ہونا چاہیے، درخواست کروں گا ایسی پالیسی بنائی جائے اور عام معافی کا اعلان کیا جائے، بلوچستان کے حوالے سے سنجیدہ پالیسی کے مثبت اثرات پڑیں گے، امید کرتا ہوں ریاست دوسرے لوگوں کے تحفظات بھی دور کرے گی۔