Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the wordpress-seo domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/zarayeco/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
کراچی پورٹ ٹرسٹ کو یو اے ای کے حوالے کن شرائط پر کیا گیا؟ |

کراچی پورٹ ٹرسٹ کو یو اے ای کے حوالے کن شرائط پر کیا گیا؟

کراچی پورٹ ٹرسٹ کے دو ٹرمینل معاہدے کے تحت یو اے ای کی کمپنیز کو دے دیے گئے ہیں، جس کے بعد مختلف قیاس آرائیوں نے جنم لیا اور دعویٰ کیا گیا کہ حکومت نے پورٹ کا سودا کردیا۔

ان افواہوں کے پیش نظر وفاقی وزیر برائے بحری امور فیصل سبزواری نے مفصل بریفنگ دی اور سارے حقائق سے آگاہ کیا۔ جمعے کو اپنی پریس کانفرنس میں فیصل سبزواری نے کہا کہ ابوظہبی پورٹ گروپ کے ساتھ کراچی پورٹ پر نجی ٹرمینل کا معاہدہ مکمل شفاف اور ملک کے معاشی حالات میں ایک اہم پیش رفت ہے، تنقید کرنے والے سابق وزیر خزانہ اور ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر لاعلمی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دو اور ملک بھی پاکستان کی بندرگاہوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہے ہیں جبکہ ابوظہبی گروپ نے کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم میں پورٹ کی سہولتوں، انفرااسٹرکچر اور صنعتی زون میں 2ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے، یہ تجویز وزیر اعظم  کے زیر غور ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ کراچی پورٹ کی 33 میں سے چار برتھوں پر مشتمل پی آئی سی ٹی کا 21سالہ معاہدہ ختم ہونے پر حکومتی سطح پر کی جانے والی سرمایہ کاری کو قانون کے مطابق پارلیمان کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہوئے جوائنٹ وینچر کیا گیا۔

کے پی ٹی ہیڈ آفس میں پریس کانفرنس سے خطاب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ نئے معاہدے سے کے پی ٹی کی پی آئی سی ٹی سے آمدنی میں پانچ ملین ڈالر کا اضافہ ہوگا، کراچی پورٹ کے ٹرمینل پہلے بھی نجی آپریٹر چلارہے ہیں پورٹ قاسم پر بھی نجی ٹرمینلز قائم ہیں کنسیشن ایگری منٹ کی مدت حکومت کا اختیار ہے پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کسی غیرملکی آپریٹر کو ٹرمینل چلانے اور سرمایہ کاری کے لیے معاہدہ کیا گیا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان کو ایک ایک ڈالر کی ضرورت ہے برادر اسلامی ملک کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری پر تنقید افسوسناک ہے، ایک سابق وزیر خزانہ اور ریٹائرڈ بیوروکریٹ بے بنیاد اور غلط تاثر پھیلارہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ پورٹ کا ایک ملین ڈالر سالانہ قیمت پر بیچ دیا گیا اگر وہ کراچی پورٹ کی ویب سائٹ بھی دیکھ لیتے یا گوگل کرنے کی زحمت کرلیتے تو شاید یہ بات نہ کرتے، ان کی حکومت میں ایسی سرمایہ کاری کیوں نہ آئی ان کے ایک اور وزیر خزانہ شوکت ترین نے صوبائی حکومتوں کو آئی ایم ایف کو سرپلس بجٹ کی یقین دہانی نہ کرانے کی ہدایت کی یہ لوگ ملک کا سوچیں ملک خوشحالی کی جانب جائے گا تو سب کا فائدہ ہوگا۔

 فیصل سبزواری نے کہا کہ جن برتھوں پر مشتمل کنٹرینٹر ٹرمینل کے معاہدے پر تنقید کی گئی وہ پہلے بھی فلپائن کی کمپنی چلارہی تھی کراچی پورٹ پر ایک ٹرمینل چینی کمپنی کے پاس ہے، پورٹ قاسم پر دو کنٹینرز ٹرمینل دبئی پورٹ چلارہی ہے پاکستان میں آج تک جتنے ٹرمینل بنے وہ نجی شعبہ نے ہی بنائے۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ کنسیشن ایگری منٹ کے ذریعے ملکیت کا حق منتقل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا مطلب برتھوں کو فروخت کرنا ہےم ابوظہبی پورٹ گروپ کے ساتھ معاہدے سے قبل تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے کیونکہ سرمایہ کاروں کی قانونی حقوق کا تحفظ اور احترام کرنا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابو ظہبی پورٹ گروپ نے کراچی پورٹ ایسٹ وہارف کے بڑے حصہ کو تعمیر کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کے درمیان ریل لنک بنانے پورٹ قاسم پر انڈسٹریل پارک بنانے میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے جبکہ ابو ظہبی گروپ کی 1.55 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی دلچسپی کی تجویز وزیر اعظم آفس کے زیر غور ہے جبکہ کے پی ٹی ٹرمینل کا معاہدہ 40 ملین ڈالر سے شروع ہوکر 50 ملین ڈالر پر طے ہوا اس معاہدے کے نتیجے میں کے پی ٹی کو 10ملین ڈالر ملیں گے اور پی آئی سی ٹی پر واجبات کی مد میں بھی پونے دو ارب روپے کی آمدن ہوگی۔

فیصل سبزواری نے کہا کہ کے پی ٹی کو تین سے چار ہفتوں میں 7 سے 8 ملین ڈالر اور پی آئی سی ٹی کے واجبات کی مد میں پونے دو ارب روپے ملیں گے اس معاہدے سے کے پی ٹی کے بارے میں معاشی خدشات کا خاتمہ ہوگا، کے پی ٹی کی مالی صحت بہتر ہوگی اور ہم کئی سال سے زیر التواء ترقیاتی منصوبے پورے کرسکیں گے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کے بدترین معاشی حالات میں دنیا کے دس سرفہرست ساورن فنڈز میں سے ایک نے پاکستان کی معیشت پر اعتماد کا اظہار کیا۔ابو ظہبی پورٹ گروپ سے معاہدے میں کے پی ٹی کو فی کنٹینر 18 ڈالر کی رائلٹی ملے گی۔کسی کو شک ہے کہ انتظامیہ پورٹ میں نے یا وفاقی حکومت نے غلط کام کیا تو عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔تیس جون تک کے لیے سروس چارج کی بغیر پی آئی سی ٹی کو ٹرمینل چلانے کا موقع دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ابوظہبی پورٹ گروپ کے ساتھ معاہدہ کسی نجی کمپنی یا گروپ کے ساتھ نہیں بلکہ متحدہ عرب امارات کے سرکاری گروپ کے ساتھ کیا گیا یہ وہ حکومت ہے جو ہر مصیبت میں پاکستان کی ساتھ کھڑی رہی، اگلے پچیس پچاس سالوں میں کس کی حکومت ہوگی لیکن اس کی ابادی کے مطابق وسائل بڑھانے کے لیے کام کریں۔

جنوبی ایشیا پورٹ ٹرمینل سے ملنے والی رائلٹی سے موازنہ کے بارے میں ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ایس اے پی ٹی پر کے پی ٹی نے خود 600 ملین ڈالر کے سرمایہ کاری کی ہے اس لیے وہاں سے ملنے والی رائلٹی زیادہ ہے، پی آئی سی ٹی بی او ٹی پر بنایا گیا اور معاہدہ کی مدت پوری ہونے پر یہ ترمینل کراچی پورٹ کو مل گیا جسے اب پچاس سال کے کنسیشن ایگری منٹ پر ابوظہبی پورٹ گروپ کو دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹرمینل پر نئی اور جدید میشنری و آلات کی آمد شروع ہوگئی ہے 8جدید کرینیں پہنچ گئی ہیں پرانے ایکوپمنٹ کی مالیت کا اندازہ 21ملین ڈالر لگایا گیا جس کی اطمینان بخش قیمت نئے معاہدے میں وصول کی گئی تمام اثاثہ جات کا تخمینہ شفاف طریقے سے لگایا گیا۔ابو ظہبی پورٹ نے تمام ملازمین کی بھی خدمات حاصل کرلیں ۔

وزیر خزانہ کے صحافی کے ساتھ سلوک پر پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ کسی صحافی کے ساتھ کسی کو اس طرح کا طرز عمل نہیں ہونا چاہئیے افسوس کہ ڈار صاحب سے ایسا سرزد ہوا۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بارے میں وفاقی وزیر نے کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں کے اعتماد کی ضرورت ہے پاکستان ملٹی لٹرل اور بائی لٹرل وعدوں کی پاسداری کررہا ہے، آئی ایم ایف معاہدہ جلد ہونا چاہئے۔