اےآئی کی بدولت 90 فیصد لوگ بیروزگار ہوسکتے ہیں، ماہرین

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو مصنوعی ذہانت (  اے آئی ) کی اہمیت کا ادراک ہورہا ہےا ور وہ سیکھ رہے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کا روزمرہ زندگی میں استعمال کیسے کیا جائے۔

  مصنوعی ذہانت کا دائرہ بہت تیزی سے وسعت اختیار کررہا ہے اور تجارتی و کاروباری  شعبوں میں خاص طور سے اس ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھتا چلا جارہا ہے۔

چیٹ جی پی ٹی،  بارڈ اینڈ بنگ جیسے ٹولز  کے ذریعے ہم متعدد ایسے کام کرسکتے ہیں جس کا پہلا تصور تک نہیں  تھا،ا ور اب کمپنیاں مصنوعی ذہانت کے حامل اپنے روبوٹس کے تجربات بھی کررہی ہیں۔

اس  تناظر میں لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے  کہ کیا ایک دن مصنوعی ذہانت دفاتر، کمپنیوں اور کارخانوں میں افرادی قوت کی  جگo لے لے گی اور  وہ اپنی ملازمتوں سے محروم ہوجائیں گے۔

 اس سلسلے میں بہت کچھ کہا جاچکا  ہے اور اس موضوع پر تبصروں اور اظہارخیال کا سلسلہ بدستور جاری  ہے۔ ایک طبقے کا خیال ہے  کہ جاب مارکیٹ پر مصنوعی ذہانت کا اثر یقیناً پڑے گا جبکہ دوسرے طبقے کی سوچ اس کے برعکس ہے۔

 انڈیا کی معروف فن ٹیک کمپنی کریڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کنال شاہ کہتے ہیں کہ اس لمحے ہمیں مصنوعی ذہانت سے جڑے خطرے  کا اندازہ نہیں ہے۔

کنال شاہ نے کہا  کہ انہیں یقین ہے کہ آئندہ دس برسوں میں مصنوعی ذہانت ( اے آئی  )90 فیصد  لوگوں کی ملازمتیں  کھا جائے گی۔

 کچھ لوگوں کا  موقف ہے کہ صلاحیتوں کو بہتر بنا کر اور  اے آئی کے استعمال میں مہارت حاصل کرکے وہ اپنے ملازمتیں  بچاسکتے ہیں، مگر کنال شاہ ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔

 کنال شاہ کا کہنا ہے کہ انسان کے لیے  اپنی صلاحیتیں  قلیل عرصے میں اتنی بہتر بنالینا ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اے آئی کے استعمال میں  ماہر ہوجائیں۔

واضح رہے کہ  قبل ازیں  چیٹ جی پی ٹی کی مالک کمپنی اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹیو سام آلٹمین بھی کہہ چکے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے انسانیت پر صرف مثبت اثرات نہیں ہوں گے۔