ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ 12 سالوں کی تاخیر سے سانحہ بلدیہ فیکٹری کا فیصلہ سنایا گیا، ایم کیو ایم اپنے کارکنوں کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔
پارٹی کے مرکزی الیکشن سیل، پاکستان ہاؤس میں پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ہمراہ میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ کسی نے اپنے ملک کی بقا، سلامتی اور آزادی کیلیے کہا تھا کہ ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہماری عدالتیں آزاد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 12 سال کی تاخیر سے سانحہ بلدیہ فیکٹری کا فیصلہ سنایا گیا جس میں ایم کیو ایم پاکستان کے دو بے گناہ کارکنان کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ اس واقعے میں ایک رائے کو سن کر فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت اپنے کارکنان کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔
ڈاکٹر خالد مقبول نے کہا کہ عدالتوں اور ریاستی فیصلوں میں لسانی رنگ اور تعصب کی بدبو آئے تو ملک کیلیے خطرہ ہے۔ بلدیہ فیکٹری میں شہید ہونے والے بھی ہمارے تھے اور آگ بجھانے کی کوشش کرنے والے بھی، معزز عدلیہ دیکھ سکتی ہے ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت یہاں موجود ہے۔
انہوں نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری پر عدالتی کمیشن بنایا جائے، پہلی جے آئی ٹی رپورٹ میں اسے حادثہ قرار دیا گیا ہے، میزنائن فلور پر سی سی ٹی فوٹیج میں دیکھا گیا تھا کے اسپارک ہوا۔
خالد مقبول نے کہا کہ ایم کیو ایم احتساب کیلیے خود کو پیش کر رہی ہے امید کرتے ہیں سانحہ بلدیہ کے ساتھ پی آئی اے اغوا کیس، محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل پر بھی عدالتی کمیشن بنے گا۔
ایم کیو ایم سانحہ بلدیہ کو ایک حادثہ سمجھتی ہے اگر کوئی مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے تو وہ فیکٹری مالکان ہیں، فیکٹری میں انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔
ایم کیو ایم کے کنوینر نے کہا کہ رؤف صدیقی نے بلدیہ فیکٹری کے مقدمے میں 800 پیشیوں پر حاضری دی ہے۔ پہلی جے آئی ٹی کے فیصلے کو رد کر کے دوسرے جے آئی ٹی کے فیصلوں کو کیوں تسلیم کریں۔ اس فیصلے سے انصاف کا قتل ہوا ہے، یہ پاکستان میں انصاف کا 9/11 ہے۔