سید مصطفیٰ کمال نے کہا کہ جج صاحب نے جو فیصلہ لکھا ہے اس میں انہوں نے اپنی سوچ کے مطابق ہماری سوچ لکھی ہے جبکہ 260 شہید ہونے والے افراد کے وکیل بیرسٹر فیصل نے جو پوری کتاب لکھی اور لوگوں سے شہادتیں لیں انہیں نظر انداز کر دیا گیا۔
جج صاحب نے یہ اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت کے بغیر ایم کیو ایم کے کارکنان نے یہ عمل کیسے کیا، اس پر تو ہمیں پھانسی دی جانی چاہیے نہ کہ کارکنان کو۔
انہوں نے کہا کہ تحقیقات میں فیکٹری مالکان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے فیکٹری میں چوری کے ڈر سے تمام دروازے اور کھڑکیاں لوہے کی چادریں ویلڈ کر کے بند کر دیے تھے۔
فیکٹری کے تمام دروازے سیل تھے، کوئی سیفٹی کا سامان نہیں تھا، نہ ملازمین کو تربیت دی گئی تھی، نہ ہی کوئی فائر الارم تھا۔ کوئی خارجی راستہ نہیں تھا، فیکٹری میں آنے اور جانے کا صرف ایک راستہ تھا۔ جہاں موجود چار گارڈز اور سی سی ٹی وی کیمرہ کے مطابق نہ کوئی فیکٹری میں گیا، نہ کوئی آیا پھر دہشتگردی کیسے ہوئی۔
شہید ہونے والوں کے وکیل بیرسٹر فیصل صدیقی نے پوری کتاب لکھی جس میں انکشاف کیا تھا کہ بیسمنٹ میں غیر قانونی طریقے سے لکڑی کا فلور ڈال کر ایک ایکسٹرا فلور بنایا گیا جس نے آگ پکڑی، نیز یہ کہ مذکورہ فیکٹری کہیں رجسٹرڈ ہی نہیں تھی، جس سے فیکٹری مالکان اور سندھ حکومت کی غفلت عیاں ہوتی ہے۔
مصطفی کمال نے کہا کہ اس بات کا کہیں ذکر ہی نہیں، فیکٹری مالکان ایک کینیڈا جبکہ دوسرا یو کے میں جا کر بیٹھ گیا ہے۔ اگر وہ 260 لوگوں کیلیے انصاف چاہتے تو آج پہلے جیسا ماحول نہیں یہاں پر ہوتے لیکن لاڑکانہ کی عدالت جا کر فیکٹری مالکان کو چھڑوایا گیا، جس کے بعد پہلی فلائٹ سے دونوں باہر چلے گئے۔
انہوں نے کہا کہ جس زبیر کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے اسے آگ لگنے کے بعد گودھرا میں بننے والی نئی فیکٹری میں بھی ڈھائی سالوں تک ملازمت پر رکھا گیا۔ جس نے آگ لگائی اسے فیکٹری مالکان خود اپنی گاڑی میں ایئرپورٹ چھوڑ کر آئے، سوال بنتا ہے اگر وہ ایسا تھ تو اسے دوبارہ ملازمت پر کیوں رکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کا گواہ ایک چرسی ہے جو کہہ رہا تھا میں چرس پینے نیچے گیا تو زبیر کو کمیکل چھڑکتے دیکھا، بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں ہر جگہ کیمرے تھے، 12 سالوں میں کسی عدالت میں ان کیمروں کی ریکارڈنگ کیوں نہیں پیش کی گئی تمام سی سی ٹی وی کیمرے محفوظ تھے پھر بھی اس کی مدد سے تحقیقات نہیں کی گی۔
مصطفی کمال نے کہا کہ تفتیش بتاتی ہے کہ یہ حادثہ تھا، اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ فیکٹری میں آگ لگائی گئی ہو۔ ایم کیو ایم اپنے کارکنان کیلیے ہر دروازہ کھٹکھٹائے گی۔
اس موقع پر سابق وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ ہم اس تمام معاملے پر اپیل دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اگر اندیشے پر بات کی گئی تو ہم اس پر قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتے ہیں اور ایم کیو ایم تمام قانونی راستے اختیار کرے گی۔