ایم کیو ایم کا دماغ سمجھے جانے والے کنونیئر ڈاکٹر عمران فاروق شہید کی 13ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔
پچاس سالہ ڈاکٹر عمران فاروق کو لندن کے علاقے ایڈوارڈ میں 16 ستمبر 2010 کو اُن کے گھر کے قریب چھریوں کے وار سے قتل کیا گیا تھا جبکہ اُن کی تدفین کراچی کے علاقے عزیز آباد میں قائم شہدا قبرستان میں کی گئی، جس کے بعد قتل میں ملوث افراد کو پاکستان کی عدالت سے عمر قید کی سزا بھی سنائی تاہم ملزمان کے اہل خانہ اس سزا کو غلط مانتے ہیں جسے انہوں نے اعلیٰ عدالت میں چلینج بھی کیا تھا۔
ویسے تو ایم کیو ایم کی جدوجہد میں کئی کارکنوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تاہم شہید انقلاب کا لقب پانے والے واحد عمران فاروق تھے اور آج ہر چیز ہونے کے باوجود بھی تمام دھڑے انہیں شہید انقلاب ہی سمجھتے اور پکارتے ہیں۔
عمران فاروق کے قتل کے الزام میں چار افراد محسن، کاشف، معظم اور خالد شمیم کو گرفتار کیا گیا، جس کے بعد ایک ملزم پُراسرار طور پر لاپتہ ہوگیا۔ ملزمان کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ ان کے پیاروں کو گھروں سے لاپتہ کرنے کے دو سال بعد پاک افغان بارڈر سے گرفتار کر کے ظاہر کیا گیا۔
ڈاکٹر عمران فاروق کون تھے؟
ڈاکٹر عمران فاروق کو ایم کیو ایم کا دماغ سمجھا جاتا تھا، انہوں ’تحریک‘ کا نظریہ اور فسلفے کے ساتھ قائد پر اندھا اعتماد، ذاتی انا کو فنا کرنا، اجتماعیت کا تصور، حقیقت پسندی عملیت پسندی اور ایک جھنڈے تلے مل کر جدوجہد کا تصور پیش کیا۔
اے پی ایم ایس او کے تنظیمی ڈھانچے میں کمانڈ رکھنے کے بعد جب ایم کیو ایم نے علاقائی سطح پر سیاست کا آغاز کیا تو تنظیمی ڈھانچے کی ذمہ داری عمران فاروق کے سپرد کی گئی، بعد ازاں وہ رکن سندھ اسمبلی بنے اور ایوان میں پہلی بار دفاعی بجٹ پر اعتراض کرنے والی پہلی شخصیت بنے۔
بانی ایم کیو ایم نے ڈاکٹر عمران فاروق کو بھارت کے حوالے سے کیا ہدایت کی تھی؟ تہلکہ خیز رپورٹ
بعد ازاں جناح پور کے نام پر ایم کیو ایم کے خلاف جب آپریشن کا آغاز ہوا اور پارٹی سے عامر خان و آفاق احمد نکل کر مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کی صورت میں سامنے آئے تو ڈاکٹر عمران فاروق روپوش ہوگئے۔ پھر کئی سال بعد وہ اچانک 1999 میں لندن پہنچے اور بانی متحدہ کے ساتھ منظر عام پر آئے۔ ریاست پاکستان کی طرف سے اُن کے سر کی قیمت بھی مقرر کی گئی تھی۔ لندن پہنچ کر انہوں نے سیاسی پناہ لی اور آخری وقت تک وہیں رہے حتی کہ شادی بھی لندن میں ہی کی۔
کہا جاتا ہے کہ انہیں کسی مقصد کے تحت لندن بھیجا گیا مگر ڈاکٹر عمران فاروق نے اپنے کردار سے اس افواہ یا سازش کو جھوٹا کر دکھایا، بعد ازاں انہوں نے لندن سے بیٹھ کر بطور کنوینئر کراچی اور حیدرآباد سمیت دیگر علاقوں میں تنظیمی امور چلائے۔
ایم کیو ایم کے اکابرین کہتے ہیں کہ عمران فاروق جیسی تنظیمی امور پر گرفت کسی کی آج تک نہیں رہی، انہیں ہر چیز فنگر ٹپس پر یاد رہتی تھی جبکہ حافظے کے اعتبار سے بھی وہ شاندار شخصیت سمجھے جاتے تھے۔
تنظیمی معاملات کے ساتھ عمران فاروق کا پارٹی کے سیاسی معاملات میں بھی بہت گہرا اثر تھا اور وہ ہمیشہ اس بات کے قائل رہے کہ متوسط طبقے کے لوگوں کو آگے لایا جائے، پارٹی میں میرٹ کا سسٹم قائم ہو اور باصلاحیت لوگ شہر، قوم و ملک کی خدمت کرسکیں۔
ڈاکٹر عمران فاروق معمول کے مطابق پارٹی امور انجام دے رہے تھے کہ اس دوران 16 ستمبر 2010 کی وہ بدقسمت گھڑی آئی جب انہیں گھر کے بالکل قریب شہید کردیا گیا۔ باُن کے انتقال کے بعد اہل خانہ انتہائی کسمپرسی میں چلے گئے۔
کیا عمران فاروق نئی پارٹی بنا رہے تھے؟ شمائلہ عمران نے سب بتا دیا
بعد ازاں پاکستان میں موجود قیادت اور پی ایس پی کی تشکیل کے بعد رہنماؤں نے متعدد بار بانی ایم کیو ایم پر قتل کے الزامات عائد کیے تاہم اسکاٹ لینڈ یارڈ کی تحقیقات میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی جبکہ جن لوگوں کے نام تھے وہ لندن حکومت نے پاکستان کے ساتھ شیئر کیے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ وہ انتقال والے روز کسی بی کیو ایم نامی جماعت کا اعلان کرنے جارہے تھے جبکہ اُن کی اہلیہ شمائلہ عمران جو ڈاکٹر عمران فاروق کے بہت قریب تھیں وہ اور اُن کے دیگر قریبی ساتھی اس بات کا انکار کرتے ہیں۔
ڈاکٹر عمران فاروق کی تیرہویں برسی پر بانی ایم کیو ایم اور متحدہ پاکستان کی قیادت نے شہید انقلاب کا لقب پانے والے عمران فاروق کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ اُن کی جدوجہد اور فکر کے ساتھ تحریکی سفر کو جاری رکھا جائے گا۔