Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the insert-headers-and-footers domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/zarayeco/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
وائلڈ لائف کی کارروائی،54 یورپی فاختائیں آزاد کر دی گئیں |

وائلڈ لائف کی کارروائی،54 یورپی فاختائیں آزاد کر دی گئیں

کراچی : سندھ وائلڈ لائف نے سپرہائی وے کراچی پرکارروائی کے دوران مسافربس کے ذریعے پشاورسے کراچی اسمگل کیے جانے والی 54 یورپی فاختائیں(ٹرٹل ڈوو) قبضے میں لے لیکرملیرکی فضاوں میں آزادکردیاہے۔

کنزرویٹر سندھ وائلڈ لائف جاوید مہر کے مطابق محکمہ جنگلی حیات سندھ نے سپرہائی وے پرکارروائی کے دوران 54فاختائیں تحویل میں لیں۔

پشاورسے آنے والی مسافربس کی چیکنگ کے دوران یورپی فاختائیں برآمد ہوئیں، یقینی طورپرمذکورہ پرندوں کو روایتی اندازسے شکار کے بعد پشاورسے کراچی اسمگل کیا جارہا تھا، دوران پوچھ گچھ کسی بھی مسافرنے ان کی ملکیت قبول نہیں کی۔

جاوید مہرکے مطابق فاختائیں خوراک اورپانی کی فراہمی کے بعد فضاوں میں آزادکی گئیں ۔ پرندوں کی ایک صوبےسے دوسرے صوبے میں اسمگلنگ کے حوالے سے تفتیش جاری ہے۔ ٹرٹل ڈوو یا سیلانی پرندہ ہے جو اپنی مسحورکن آوازکی وجہ سے مشہورہے، ہرسال موسم خزاں کے شروع ہوتے ہی یہ ایران کے مائیگریشن روٹ سے پاکستانی علاقوں میں داخل ہوتے ہیں۔

یہ فاختائیں پاکستان کا رخ کرنے کے بعد سندھ کے ساحلی علاقوں اوربلوچستان کے میدانی علاقوں کے راستے ہمالین فوٹ ہلز کے علاقوں تک جاتی ہیں، اور موسم بہار شروع ہوتے ہی واپسی کا سفر اسی راستے سے کرتے ہیں۔ٹرٹل ڈوو اپنی خوبصورتی اورلذیذ گوشت کی وجہ سے بے دریغ شکارجیسے مسائل سے دوچارہیں، ان عوامل کی وجہ سے ان کی نسل عالمی طور پر معدومیت سے دوچارہوچکی ہیں۔واضح رہے کہ خوراک اورپانی کی فراہمی کے بعد فضاوں میں آزادکی گئیں ۔ پرندوں کی ایک صوبےسے دوسرے صوبے میں اسمگلنگ کے حوالے سے تفتیش جاری ہے۔ ٹرٹل ڈوو یا سیلانی پرندہ ہے جو اپنی مسحورکن آوازکی وجہ سے مشہورہے، ہرسال موسم خزاں کے شروع ہوتے ہی یہ ایران کے مائیگریشن روٹ سے پاکستانی علاقوں میں داخل ہوتے ہیں۔ یقینی طورپرمذکورہ پرندوں کو روایتی اندازسے شکار کے بعد پشاورسے کراچی اسمگل کیا جارہا تھا، دوران پوچھ گچھ کسی بھی مسافرنے ان کی ملکیت قبول نہیں کی۔