کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے گیارہ لاپتہ افرادکی بازیابی سے متعلق دائردرخواستوں پروفاقی سیکریٹری داخلہ ماتحت اداروں سے رپورٹس عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے ۔
سندھ ہائیکورٹ میں بدھ کو سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ بظاہر لگتا ہے لاپتہ کے اہلخانہ بے یارو مددگار ہیں عدالت ہی ان کی آخری امید ہے۔
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹونے کہا کہ گمشدہ افراد کو تلاش کرنا ریاست کی ذمہ داری ہےوفاقی سیکریٹری داخلہ ماتحت اداروں سے رپورٹس حاصل کرکے عدالت میں جمع کرائیں رپورٹس جمع کرانے کی ناکامی پر وفاقی سیکریٹری داخلہ خود پیش ہوکر وضاحت دیں عدالت نے جے آئی ٹی اور ٹاسک فورس کو لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کے لیے کام تیز کرنے کی ہدایت کی ۔
سندھ ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں جے آئی ٹی، ٹاسک فورس، پولیس اور دیگر ادارے کام کررہے ہیں مسلسل ناکامی پر لاپتہ افراد کے اہلخانہ مایوس ہو چکے ہیں عدالت نے ذیشان، ندیم، نعیم اللہ، عمر زمان اور دیگر کی بازیابی کے لیے مارڈرن ڈیوائسز کا استعمال کرنے کی ہدایت کی عدالت نے چار ہفتوں میں متعلقہ اداروں سے پیش رفت رپورٹ طلب کرلی ہے
علاوہ ازیں سندھ ہائی کورٹ میں ڈیڑھ سال سے گم ہونے والے نوجوان عثمان کاپولیس مقابلہ میں ماردے جانے کاانکشاف ہوا ہے عدالت نے پولیس کوحکم دیاکے نوجوان کی قبراورپولیس مقابلہ میں مارے جانے کاریکارڈ گھروالوں کو بتایا جائے۔عدالت نے ریمارکس دے کہ یہ بتایاجائے کہ پولیس مقابلہ کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ عدالت نے رپورٹ طلب کرتے ہوئے ۔سماعت یکم نومبر تک ملتوی کردی درخواست گزارعثمان کے والد نورعالم نےموقف اختیار کیاکہ میرا بچہ ڈیڑھ سال سے گم تھا جس کا کیس داخل کیا مگرکچھ بھی نہیں ہوا اچانک 2019 میں پتہ چلا کہ میرے بیٹے کوسپرہائی وے پرپولیس مقابلے میں ماردیا گیا ہے ہمیں معلوم نہیں کس جرم میں ماردیاگیاہے ہمیں یہ بھی پتہ نہیں ہے اس کی قبر کہاں ہےعدالت سےاستدعا ہے کم ازکم ہمیں قبر کے بارے میں اطلاع دی جائے۔