’ایک شخص نے مجھے روک کر کہا کہ ہمارے لیے جیل جانا کوئی نئی یا مسئلے کی بات نہیں ہے کیونکہ ہم اس سے پہلے بھی جاچکے ہیں‘۔ یہ الفاظ ہیں سرکاری پروفیسر کے جنہیں کراچی میں ایک کالج میں بیرونی غنڈہ عناصر کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
شہر قائد کے مختلف علاقوں میں قائم کالجز میں غںڈہ عناصر کی جانب سے اساتذہ اور طلبا کو تشدد کا نشانہ بنانے کے پے در پے واقعات پیش آرہے ہیں۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق 17 اکتوبر کو منگل کے روز ناظم آباد بلاک فائیو میں قائم جناح کالج میں غنڈہ عناصر کی جانب سے ایک طالب علم کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا کہ اس دوران وہ بھاگ کر اسٹاف روم میں پہنچ گیا جہاں اُس نے اساتذہ کو سارے واقعے سے آگاہ کیا۔
اس سے قبل سراج الدولہ، سٹی کالج میں بھی بیرونی عناصر کی جانب سے طالب علموں سے جبری پیسے لینے اور دوران کلاس اساتذہ سے بدتمیزی کرنے کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔
ایک ٹیچر نے بتایا کہ ’ایک شخص نے مجھے دھمکی دی کہ ہمارے لیے جیل جانا کوئی مسئلے کی بات نہیں، ہم تمھیں اور تمھارے بچوں کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں‘۔
اس دوران مذکورہ غنڈہ عناصر (جن کا تعلق مبینہ طور پر ایک لسانی طلبا تنظیم سے بتایا گیا ہے) نے اسٹاف روم میں داخل ہوکر طالب علم کو پکڑنے کی کوشش کی تاہم اساتذہ کے درمیان میں آگئے۔
غنڈہ عناصر نے مبینہ طور پر اسٹاف روم میں چار اساتذہ سے بدکلامی کی اور انہیں مبینہ طور پر تشدد کا بھی نشانہ بنایا جس کے بعد کالج میں خوف و ہراس پھیل گیا جبکہ اساتذہ کو اس کی قیمت ادا کرنے کی دھمکی بھی دی گئی۔ اس دوران ایک ٹیچر کا دوران تشدد چشمہ بھی ٹوٹا۔
یہ سلسلہ دو روز جاری رہا جس کے بعد سندھ پروفيسرز اينڈ ليکچررز ايسوسی ايشن ( سپلا) کے عہدیداران نے کالج کا دورہ کیا اور اساتذہ سے ملاقات کر کے اُن کے ساتھ پیش آئے واقعے پر ہنگامی اجلاس کیا۔ اجلاس میں طے پایا کہ اساتذہ احتجاجا بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھیں گے۔
اساتذہ کے احتجاج پر سیکریٹری کالجز اور ڈائریکٹر جنرل کالجز نے نوٹس لے کر تحقیقات کیلیے کمیٹی قائم کردی ہے۔
ڈائریکٹر کالجز نے جمعے کے روز کالج کا دورہ کیا اور اساتذہ کے ساتھ ایک گھنٹہ طویل میٹنگ کی۔ جس کی اندرونی کہانی کچھ ایسی سامنے آئی کہ اساتذہ نے پرنسپل اور اُن کے رویے کے خلاف کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
اجلاس کی اندرونی کہانی
اندرونی کہانی کے مطابق اساتذہ نے انتظامی معاملات میں بھی پرنسپل کے خلاف شکایات کے انبار لگائے اور بتایا کہ گزشتہ چار ماہ میں کالج کی تباہ حالی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔
اساتذہ کے تحفظات پر پرنسپل نے ڈی جی کالجز کے سامنے منگل کے روز پیش آنے والے واقعے پر اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور اس بات کا بھی تذکرہ کیا کہ انہوں نے پولیس اور اعلیٰ حکام کو اس واقعے سے متعلق کیوں آگاہ نہیں کیا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں موجود اساتذہ میں سے چند ایک نے بتایا کہ (مبینہ طور پر) پرنسپل بیرونی اور طلبا تنظیم کے عناصر کو بلا کر نہ صرف اُن کے ساتھ گپے لگاتے ہیں بلکہ انہیں چائے پر اپنا مہمان بھی بناتے ہیں۔
اجلاس میں ڈی جی کالجز پروفیسر محمد سلیمان نے اساتذہ کو یقین دہانی کرائی کہ اُن کی سیکیورٹی کے مسائل کو حل کیا جائے گا جبکہ واقعے میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی بھی کی جائے گی۔ ڈی جی کالجز نے واقعے کی تحقیقات کیلیے کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے جو پیر کے روز کالج کا دورہ کر کے بیانات قلم بند کرے گی۔
سپلا کے صدر کا مؤقف
سندھ پروفيسرز اينڈ ليکچررز ايسوسی ايشن ( سپلا) کے صدر منور عباس نے کہا کہ ہم نے اساتذہ کے تحفظات سے ڈی جی کالجز کو آگاہ کردیا ہے اور امید ہے کہ اُن کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات و یقین دہانیوں کے بعد مستقبل میں ایسے معاملات پیش نہیں آئیں گے۔
کالجز میں کون لوگ باہر سے آکر یہ سب کرتے ہیں؟
جب ہم نے مذکورہ کالجز میں جاکر اس بات کو معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ایسے عناصر کیا طالب علم ہیں؟ تو معلوم ہوا کہ وہ نہ تو طالب علم ہیں اور نہ ہی اُن کا طلبا تنظیم سے کوئی تعلق ہے تاہم دوستیوں اور خاص واستگیوں یا تعلقات کی بنیاد پر اُن کا غیر قانونی طور پر نہ صرف کالج آنا جانا ہے بلکہ وہ مداخلت بھی کرسکتے ہیں۔
ایک کالج کے ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ معاملہ کسی طلبا ، سیاسی یا مذہبی تنظیم کا نہیں اور نہ ہی اس کو کسی گروہ سے جوڑا جاسکتا ہے، ایسے عناصر تنظیموں میں موجود چند لوگوں سے روابط کی وجہ سے پہلے کالجز میں بیٹھک بناتے ہیں اور پھر اپنا اصل رنگ دکھانے لگتے ہیں‘۔
کالج میں کون داخل ہوسکتا ہے؟
کالجز کے ضابطہ اخلاق کے مطابق کالج میں طالب علم، مستقبل یا کنٹریکٹ اساتذہ، پرنسپل، عملہ داخل ہوسکتا ہے تاہم اگر کوئی نیا شخص داخل ہوتا ہے تو اُس کو ایک خاص حد تک جانے یا معلومات لینے کی اجازت ہوتی ہے، اس کے علاوہ اگر اُسے کچھ ضروری درکار ہو یا معلومات لینی ہوں تو پھر وہ خاص اجازت لے کر ہی اپنے مقررہ مقام تک جاسکتا ہے۔
ہر کالج میں انتظامی اور نصابی اعتبار سے پرنسپل سربراہ کی حیثیت سے اقدامات کرسکتا ہے اور وہ کسی بھی شخص کے داخلے یا اُس کو آنے کی اجازت دینے کا مجاز بھی ہوتا ہے۔
مسائل کا حل کیا ہے؟
ایک پروفیسر نے کہا کہ کالجز میں طلبا تنظیموں یا ایسے عناصر کا ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک طویل ماضی ہے تاہم اساتذہ کو تشدد کا نشانہ بنانے یا کلاسز میں داخل ہوکر بدتمیزی کرنے کے واقعات اب بہت تیزی کے ساتھ پیش آرہے ہیں، اگر پہلا کبھی ایسا ہوتا تھا تو کالج کے پرنسپل سخت ایکشن لیتے تھے اور کارروائی بھی ہوتی تھی۔
’کئی واقعات ایسے ہوئے جن میں کارروائیاں نہیں کی گئیں اور معاملے کو دبایا گیا تو ایسے عناصر کو چھوٹ مل گئی ہے اور اب وہ تقریبا چار کالجز میں تو پہنچ چکے ہیں جبکہ خدشہ ہے کہ کہیں مزید کالجز متاثر نہ ہوں، اگر یہ کسی طلبا تنظیم سے ہوتے تو اُن کے عہدیداران کو بلا کر سخت تنبیہ کی جاسکتی تھی مگر ان کا تو تعلق ہی نہیں اور نہ ہی رجسٹریشن ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’مسائل کا حل بالکل سیدھا اور آسان سا ہے کہ سب سے پہلے اُن لوگوں کو پرنسپل کی سیٹ دی جائے تو تعلیم اور اساتذہ سے محبت کرنے والے ہوں کیونکہ ایسا شخص اصول پسند اور بہادر ہوتا ہے، دوسرا یہ کہ چونکہ اب پولیس کے پاس نفری کم یا دیگر وجوہات کا عذر موجود ہے تو کالجز میں سیکیورٹی رینجرز کے ہاتھ میں دی جائے اور کلاسز کے وقت ایک موبائل موجود رہے، جس سے ان سارے واقعات کی روک تھام ہوسکتی ہے‘۔
طلبا اور ماہرین تعلیم کا مؤقف
ہم نے اس سلسلے میں مختلف طلبا اور ماہرین تعلیم سے بھی بات کی جنہوں نے واشگاف الفاظ میں بتایا کہ اگر درسگاہ میں خوف ہوگا تو طلبا کی تعلیمی قابلیت ختم ہوجائے گی اور اُس سے مستقبل تاریک ہوجائے گا، لہذا پُرسکون، پُرامن اور طلبا دوست تعلیمی ماحول فراہم کیا جائے۔