شہر قائد کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اسٹریٹ کرمنلز کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کے ثمرات شہر میں آنا شروع ہوگئے ہیں۔
کراچی پولیس کے مطابق شہر بھر میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ڈکیتی، اسٹریٹ کرائم کی کوئی واردات نہیں ہوئی۔
رواں سال ڈکیتی مزاحمت پر 117 افراد سے زائد قتل
دوسری جانب اگر پولیس کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو محکمے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ رواں سال میں ڈکیتی کی ہزاروں واردات پیش آئیں جس کے دوران مزاحمت پر 117 سے زائد شہریوں کو قتل کیا گیا، جن میں خواتین، پولیس و دیگر سیکیورٹی اہلکار اور دو سالہ بچی بھی شامل ہیں۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ شہر میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مقابلے کے دوران ایک ملزم ہلاک جبکہ ایک زخمی ہوا اور تین کو گرفتار کیا گیا۔
دوسری جانب شادمان، نیوٹاؤن اور رسالہ تھانے کی حدود میں ڈکیتی کی وارداتیں پیش آنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔
#foryoupage #fyp #fypage #karachi #karachipolice #proudtoserve #karachipoliceofficial #karachidiaries #trending #foryou pic.twitter.com/3TktIQumwP
— Karachi Police (@KarachiPolice_) November 7, 2023
کرائم رپورٹر طاہر عباسی نے پولیس کے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ نیو ٹاؤن میں موبائل کی دکان پر واردات میں مسلح ملزمان پانچ لاکھ روپے اور موبائل چھین کر لے کر گئے ہیں۔
رسالہ میں احمد نامی موبائل کے تاجر کو بھی مسلح افراد نے لوٹا اور موبائل فون چھین کر فرار ہوئے جبکہ شادمان ٹاؤن میں شادمان مسجد کے بالکل قریب سے گھر کی دہلیز پر مسلح افراد شہری کو لوٹ کر لے گئے ہیں۔
کراچی پریس کلب کے سابق سیکریٹری پھر اسٹریٹ کرائم کا شکار، ویڈیو سامنے آگئی
شاہد معین نامی شہری نے بتایا کہ تھانہ پاکستان بازار کی حدود میں اسٹریٹ کرمنلز کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو رہی ہے، کل رات کی بات ہے سنی نامی نوجوان نے 15 کو اطلاع دی سیکٹر F/14 میں دو اسنیچر 125 پر کھلے عام لوٹا ماری کر رہے ہیں اس علاقے میں پولیس کی نفرت پہنچی ہی نہیں اس محلے کے لوگ انتظار ہی کرتے رہ گئے_____؟؟
عماد حسین نے لکھا کہ یہ ضروری ہے کہ شہریوں کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ اپنے ساتھ پیش آنے والی چھوٹی سے چھوٹی واردات یا نقدی چھینے کی ایف آئی آر درج کروائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’شہری صرف اس لیے پولیس اسٹیشن نہیں جاتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘۔
اس اور صارف مقصود نے لکھا کہ ’یہ کام پہلے بھی ہوسکتا تھا سیکڑوں کراچی والوں کی جان گئیں کروڑوں روپے چھن گئے اس سب کا ذمہ کون ہے‘۔
شہریوں کا ماننا ہے کہ پولیس کی جانب سے یہ اعداد و شمار محض اس لیے جاری کیے گئے ہیں کہ ’افغانی تارکین وطن‘ کے انخلا کے بعد شہر میں جرائم کی شرح کم ہوگئی ہے۔
دوسری جانب سندھ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’شہر میں ہونے والی اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں کمی یا اضافہ اصل مسئلہ نہیں، اعداد و شمار گھٹنے یا بڑھنے سے شہریوں مطمئن نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں‘۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’سوشل میڈیا پر متعدد پرانی وارداتوں کی ویڈیوز اور واقعات شیئر کیے جاتے ہیں، جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید کارروائی ’آج‘ کی ہے‘۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں چہرے واضح نہ ہونے پر عدم گرفتاری سے متعلق سوال پر پولیس افسر نے کہا کہ
’پولیس کو جیسے ہی کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج ملتی ہے تو اُس پر تفتیش شروع کردی جاتی ہے، ہمارے پاس گواہان موجود نہ ہونے کی وجہ سے ملزمان کو عدالت فائدہ دیتی ہے جس کی بنیاد پر وہ رہا ہوجاتے ہیں‘۔
گواہان کے تعاون نہ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’مسلح ملزمان گینگ کی صورت میں کام کرتے ہیں اور شہری اس سے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ ملزمان انہیں نقصان پہنچا دیں گے، جہاں تک بات تحفظ کی ہے تو پولیس کے پاس اتنی نفری نہیں کہ ہر ایک گواہ کی حفاظت کیلیے اہلکار کو مامور کیا جائے‘۔
کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کے خاتمے کیلیے پولیس اوررینجرز کے مشترکہ آپریشن کا فیصلہ
اسٹریٹ کرائم یا شہر میں بڑھتی لاقانونیت پر انہوں نے کہا کہ ’جہاں ہمیں افرادی قوت کی کمی ہے وہیں وسائل اور معاش بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، اب آپ دیکھیں کہ اس وقت تھانوں میں جو نفری تعینات ہے اگر اس کا اوسط لگائیں تو 400 شہریوں کیلیے ایک اہلکار مختص ہے، اس کے باوجود بھی ہمارے افسران و اہلکار عوام کے تحفظ کیلیے کام کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں‘۔