کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی رنجشیں ہیں، مرتضیٰ وہاب

کراچی(اسٹاف رپورٹر)میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی رنجشیں ہیں،چیزیں ٹھیک کرنے کی کوشش کریں تو مافیا بیچ میں آتی ہے،جب تک چیزوں کو قاعدے اور قانون میں نہیں لائیں گے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پاس شہر کا 27.4فیصد لینڈ کنٹرول ہے،میئر کراچی کا دیگر انتظامیہ سے براہ راست انتظامی تعلق نہیں ہے،کراچی الیکٹرک اور سوئی گیس جیسے اداروں میں سندھ حکومت کی کوئی نمائندگی نہیں ہے،کراچی 60فیصد ریونیو جمع کرتا ہے، یہ شہر بہتر انداز میں چل سکتا ہے اگر اسے چلنے دیا جائے،

یہ بات انہوں نے منگل کے روز اپنے دفتر میں 50 ویں اسپیشلائزڈ ٹریننگ پروگرام اور 26ویں ابتدائی کمانڈ کورس میں شامل پولیس افسران کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، اس موقع پر میونسپل کمشنر کے ایم سی سید افضل زیدی، ڈی آئی جی نعمان صدیقی، کورس کمانڈر ایس ایس پی مبشر میکن اور دیگر افسران بھی موجود تھے۔

میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ کے ایم سی ایک سال میں اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہے اگر ٹیکس نیٹ ورکنگ کو بہتر کیا جائے اور بے جا مداخلت نہ کی جائے، دنیا میں بلدیات کو ہی گورنمنٹ تصور کیا جاتا ہے،بعض ممالک میں ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ تک بلدیاتی ادارے جاری کرتے ہیں،سیاسی رہنما وژن دیتے ہیں، عملدرآمد بیوروکریٹس کو کرانا ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں بیوروکریٹس اور انتظامیہ کو کبھی کسی ادارے اور کبھی کسی ادارے کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے جس سے ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے،ہر ادارہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ ٹھیک ہے اور دوسرا غلط ہے، لوگ اب سوال پوچھتے ہیں اور شہر کے مسائل کا حل چاہتے ہیں،ہمارے فیصلوں پر اگر عدالتیں اپنے فیصلے صادر کریں گی تو کارکردگی بہتر نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس افسران غریبوں کو گلے لگائیں اور اپنے دفاتر کے دروازے ان کے لیے کھلے رکھیں، انہوں نے کہا کہ کراچی میں بلدیاتی نظام کو مسلسل چلنے نہیں دیا گیا، کے ایم سی سولہ کروڑ روپے سالانہ ٹیکس جمع کرتی ہے،ٹاؤن میونسپل کارپوریشن بلدیہ عظمیٰ کراچی سے زیادہ مستحکم ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں لوکل گورنمنٹ کا تصور ہی نہیں ہے، ہر شخص نے اپنے حساب سے آئین کی شق 140-A کی تشریح کی ہوئی ہے، عام آدمی اپنے بلدیاتی مسائل کا حل چاہتا ہے، ہمارے ہاں شہری مسائل ہیں، نشہ آوار افراد گٹر کے ڈھکن چرا کر لے جاتے ہیں اور اس کی سزا شہریوں کو بھگتنا پڑتی ہے، بلدیاتی نظام ہمارے ہاں 1933 سے لے کر 2013 تک چلتا رہا مگر میئر مسلسل نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ نظام موثر ثابت نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ میں ہر روز سیکھ رہا ہوں،مشکل یہ ہے کہ لوگ نظام کو سیکھ اور سمجھ نہیں پاتے اور اس سے پہلے ہی ان کی مدت ختم ہوجاتی ہے، 2002 سے لے کر 2023 تک چار اسمبلیاں آچکی ہیں اور پانچ حکومتیں بن چکی، ڈھائی سال بیوروکریٹس نے اس شہر کو چلایا، اگر چیزوں کا تسلسل برقرار رہے تو بہت سے بنیادی مسائل حل ہوجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی منی پاکستان ہے مگر یہاں سیاسی لوگوں کو ایک دوسرے کی چیزیں اچھی نہیں لگتی، شہریوں کے مسائل حل کرنے کے لئے ہمیں باہمی اشتراک کی ضرورت ہے، ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح نہیں دینی چاہئے، اس وقت کراچی میں ٹاؤنز کے ایم سی سے زیادہ طاقتور ہیں، پراپرٹی ٹیکس، ایڈوائزٹائزمنٹ، پارکنگ اور ٹریڈ لائسنس فیس ٹاؤنز وصول کرتے ہیں، کراچی میں وفاقی حکومت کے تحت یونیورسٹی روڈ اور ایم اے جناح روڈ پر گرین اور ریڈ لائن کے منصوبے بنائے گئے جن پر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں شہریوں کو روزمرہ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات سے محفوظ کرنا ہے اور اس کے لئے جو بھی اقدامات ضروری ہوں بلاتاخیر کرنے چاہئیں۔


نوٹ : آپ ذرائع نیوز سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رہنے کیلیے ہمارا واٹس ایپ چینل لنک پر کلک کر کے جوائن کرسکتے ہیں۔ 

اپنا تبصرہ بھیجیں: