سینئر انویسٹی گیشن رپورٹر مبشر فاروق نے انکشاف کیا ہے کہ پولیس کے کرپٹ، راشی اور عیاش افسران جو نشے اور لڑکیوں کے شوقین تھے اُن کے ذریعے ایم کیو ایم کے کارکنوں کو جعلی انکاؤنٹرز یا ماورائے عدالت قتل کروایا گیا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم رفتار ٹی وی کی جانب سے پیش کردہ 1992 کے آپریشن کی حقیقت اور پولیس کے ملوث ہونے کے حوالے سے بنائی گئی دستاویزی فلم میں سینئر کرائم رپورٹ فہیم صدیقی اور سینئر انویسٹی گیٹیو جرنلسٹ مبشر فاروق نے انکشافات کیے۔
دونوں کا کہنا ہے کہ وہ 1992 میں نہ صرف موجود تھے بلکہ انہوں نے 1992 کے آپریشن کو کور بھی کیا۔
مبشر فاروق نے بتایا کہ ’نصیر اللہ بابر کے دور میں آپریشن کا کرتا دھرتا آئی بی یعنی انٹیلی جنس بیورو تھا، ہر سال ملٹری انٹیلی جنس، دیگر ادارے اور پولیس مختلف محکموں کے حوالے سے سالانہ ایک رپورٹ بناتی ہے۔
اُس وقت جاری کردہ رپورٹ میں ’بدمعاش، کرپٹ اور غنڈہ پولیس افسران کی نشاندہی کی گئی تھی، جو شرابی، زانی، رشوت خوری اور اسمگلنگ، بدکرداری اور جرائم میں ملوث تھے۔ اُس رپورٹ پر وزیراعلیٰ اور پارلیمنٹ کو عملدرآمد کروانا تھا کہ ایسے تمام افسران کو معطل یا ملازمت سے برطرف کیا جائے۔
مبشرفاروق کے مطابق ’ملٹری انٹیلی جنس کی اس رپورٹ پر عمل کے بجائے آئی بی نے ان کرپٹ لوگوں کو ایم کیو ایم کیخلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، اُس فہرست میں چوہدری اسلم کا نام بھی تھا، انسپیکٹر ذیشان کاظمی اور وہ تمام افسران جنہوں نے 92 کے آپریشن میں اہم کردار ادا کیا اُن کا کرپٹ، جرائم پیشہ، زانی افسران کی فہرست میں نام تھا‘۔
’ایسے تمام افسران کو بچا کر کہا گیا کہ اگر آپ ہمارے کہنے پر کام کریں، 95، 96 کے سیاسی آپریشن ہوا، جس میں زرداری اور نصیر اللہ بابر نے ذاتی کام پورے کیے بلکہ یوں کہیں گیم کھیلے اور ان تمام چیزوں کو آئی ایس آئی، ایم آئی سے چھپایا بھی گیا‘۔
مبشر فاروق نے بتایا کہ ’بہادر علی کرنل خورشید آفریدی کے سیٹ اپ کیلیے کام کرتے تھے، باقی تمام پولیس افسران ذیشان کاظمی، سرور کمانڈو، توفیق زاہ آئی بی کیلیے کام کرتے تھے۔