Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the wordpress-seo domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/zarayeco/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
علی سرور اور انیس منصوری کی فوری بازیابی کا مطالبہ، 24 گھنٹے کی مہلت |

علی سرور اور انیس منصوری کی فوری بازیابی کا مطالبہ، 24 گھنٹے کی مہلت

سندھ جرنلسٹ میڈیا پروٹیکشنز کمیٹی نے علی سرور اور انیس منصوری کو لاپتہ کرنے کی مذمت اور فوری بازیابی کا حکم دیتے ہوئے آئی جی سے رپورٹ طلب کرلی۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف و سینئر صحافی علی سرور اور انیس منصوری کی گمشدگی پر سندھ جرنلسٹ پروٹیکشن کمیٹی کی ایگزیکٹیو کمٹی کا اجلاس ہوا۔

کمیٹی ممبران نے دونوں صحافیوں کی جبری گمشدگی کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ نے رپورٹ طلب کرلی۔

انیس منصوری اور علی سرور کو لاپتہ کیے جانے پر کمیشن کے چیئرمین جسٹس (ر) رشید اے رضوی نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے دونوں کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔

ایگزیکٹیو کمیٹی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کا لاپتہ کیے جانا آئین کے آرٹیکل 9، اور 10 کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ کمیشن کے چیئرمین نے نگراں وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) حارث نواز، سیکریٹری داخلہ اور آئی جی سے دونوں صحافیوں کی فوری بازیابی کا حکم بھی دیا۔

پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے ہفتے کے روز کراچی میں دو صحافیوں کو ہراساں اور جبری طور پر گمشدہ کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا، جن میں سے ایک کو مبینہ طور پر جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔

کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں مقیم صحافیوں انیس منصوری اور علی سرور کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ سرور کو مبینہ طور پر 24 نومبر کی رات اُن کے گھر سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جب کہ نامعلوم افراد منصوری کے گھر میں گھس گئے اور ان کی بوڑھی والدہ کو دھمکیاں دیں۔

ایچ آر سی پی نے سندھ کی نگراں حکومت پر زور دیا کہ وہ ان واقعات کا فوری نوٹس لے اور قصورواروں کا پتہ لگانے اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے تحقیقات کا آغاز کرے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’انسانی حقوق کمیشن ریاست کو یاد دلاتا ہے کہ آنے والے انتخابات کی ساکھ اس وقت تک داؤ پر لگی ہے جب تک میڈیا کو اس طرح کی دھمکیوں کا سامنا رہے گا‘۔

دریں اثنا کراچی یونین آف جرنلسٹس نے کراچی کے دو صحافیوں انیس منصوری اور علی سرور کے گھروں پر چھاپے اور انہیں لاپتہ کیے جانے کی سخت الفاظ میں شدید مذمت کی ہے اور وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صوبے خاص طور پر کراچی میں صحافیوں کے اغوا، ان کے گھر پر چھاپوں اور انہیں لاپتہ کیے جانے کے تواتر سے ہونے والے واقعات کا نوٹس لیں۔

کے یو جے کے صدر فہیم صدیقی، جنرل سیکریٹری لیاقت علی رانا سمیت مجلس عامہ کے اراکین نے وزیراعلیٰ سندھ سے مطالبہ کیا کہ وہ انیس منصوری اور علی سرور کو فوری طور پر بازیاب کرانے کا حکم دیں۔

کے یو جے کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک طرف سندھ میں قتل ہونے والے صحافی جان محمد مہر کے قاتل کئی ماہ گزر جانے کے بعد بھی گرفتار نہیں کیے جاسکے ہیں اور دوسری طرف کراچی سے صحافیوں کو اغوا کرکے انہیں لاپتہ کیے جانے کے واقعات بھی تسلسل سے جاری ہیں۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس سے پہلے زبیر انجم اور ایس ایم عسکری اور اب انیس منصوری اور علی سرور کو غائب کردیا گیا ہے جو انتہائی تشویش کی بات ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں افراد کے اہل خانہ کے مطابق گذشتہ رات بعض افراد جنہوں نے اپنا تعارف قانون نافذ کرنے والے ادارے سے کرایا ان کے گھروں پر چھاپہ مارا علی سرور گھر پر موجود تھے جنہیں وہ اپنے ساتھ لے گئے جبکہ انیس منصوری جو اپنے گھر پر تو موجود نہیں تھے لیکن اس چھاپے کے بعد سے وہ بھی لاپتہ ہیں۔

بیان میں دونوں صحافیوں کی گمشدگی کو آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے پر حملہ قرار دیا گیا ہے۔ کے یو جے نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر دونوں صحافیوں کے خلاف کوئی مقدمہ ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے لیکن انہیں اس طرح لاپتہ کیا جانا آئین میں موجود شخصی آزادی کے حق کی بھی خلاف ورزی ہے۔

کے یو جے نے نگراں حکومت کو دونوں صحافیوں کی بازیابی کے لیے 24 گھنٹے کی مہلت دی ہے جس کے بعد کراچی یونین آف جرنلسٹس اپنے احتجاج کا لائحہ عمل ترتیب دے کر اس کا اعلان کردے گی۔ کے یو جے نے انیس منصوری اور علی سرور کی بازیابی کے لیے سندھ جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹشنرز کمیشن کو بھی خط لکھ دیا ہے۔

اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں نے بھی علی سرور اور انیس منصوری کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری بازیابی کا حکم دیا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر علی سرور کی رہائی کے لیے مہم بھی شروع ہوگئی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ شب انیس منصوری نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے علی سرور کو گھر سے حراست میں لیے جانے کی اطلاع دی تھی، جس کے بعد سے وہ خود بھی منظر عام سے کہیں غائب ہیں۔


دعویٰ کیا جارہا ہے کہ انیس منصوری کی گرفتاری کیلیے بھی اُن کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تھا تاہم وہ موجود نہیں تھے جس پر اُن کی ’بوڑھی والدہ‘ اور اہل خانہ کے ساتھ بدمزدگی بھی ہوئی۔