معروف یوٹیوبر اور مبلغ انجینئر محمد علی مرزا ایک بار پھر مناظرے کے چیلنج سے پیچھے ہٹ گئے۔
ایک ماہ قبل انجینئر محمد علی مرزا نے اپنے ایک ویڈیو میں بزرگان دین اور دیگر برگزیدہ شخصیات کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا اور اس پر مناظرے کا چلینج دیا تھا۔
اس حوالے سے معروف مقرر اور اینکر اویس ربانی کے پروگرام کی بنیاد پر محمد علی مرزا نے مولانا حنیف قریشی کو مناظرے کا چلینج دیا جس پر اویس ربانی پیغام لے کر حنیف قریشی کے پاس پہنچے۔
ایک ماہ کی ٹال مٹول اور مصروفیات کے بعد 26 نومبر کی تاریخ طے پائی جس کا متعدد بار تذکرہ انجنیئر محمد علی مرزا نے اپنی ویڈیوز میں کیا اور ظاہر کیا کہ وہ مکمل طور پر تیار ہیں اور دلائل کی بنیاد پر وہ آنے والوں کو لاجواب کریں گے۔
اس مناظرے کا مقام انجنیئر محمد علی مرزا کی اکیڈمی تھا، جہاں میزبان اویس ربانی کراچی سے جبکہ حنیف قریشی پنجاب سے پہنچے۔ دونوں شخصیات ایک ڈرائیور اور ایک شخص کے ہمراہ جہلم میں یوٹیوبر کی اکیڈمی کے باہر پہنچے جہاں پولیس کی تعینات تھی۔
پولیس نے نقص امن کے خدشے کے پیش نظر انہیں روکا اور پھر اس دوران محمد علی مرزا کی اکیڈمی کے منتظمین مہمانوں کے پاس بات چیت کیلیے پہنچے اور بتایا کہ ’اتوار کے دن انجینئر صاحب کی مصروفیات بہت زیادہ ہوتی ہیں، آپ کو اگر اندر جانا ہے تو کیمرے اور موبائل رکھ کر جاسکتے ہیں‘۔
منتظمین کے مطالبے پر حنیف قریشی اور اویس ربانی نے کہا کہ ہم مناظرے کیلے آئے ہیں اور کیمرا و موبائل تو لے کر جائیں گے۔ جس پر رضاکاروں اور عہدیداران نے انجینئر محمد علی مرزا تک پیغام پہنچایا تاہم کئی گھنٹے انتظار کے باوجود بھی وہ سامنے بیٹھ کر دلائل سے بات کرنے پر راضی نہ ہوئے۔
بعد ازاں حنیف قریشی اور اویس ربانی کو وہاں موجود پولیس افسر نے آکر تصدیق کی کہ آپ کا پیغام انجینئر صاحب تک پہنچا دیا گیا ہے اور وہ آپ کے ساتھ بیٹھنے کیلیے تیار نہیں ہیں۔ کئی گھنٹے انتظار کے بعد دونوں شخصیات فاتحین کی طرح وہاں سے جہلم پریس کلب روانہ ہوئیں اور وہاں پہنچ کر پریس کانفرنس میں ساری تفصیل سے آگاہ کیا۔
اس موقع پر حنیف قریشی اور اویس ربانی کا مختلف مقامات پر شاندار استقبال بھی کیا گیا اور لوگوں نے اُن پر گل پاشی کر کے نعرے بھی لگائے۔ انٹرنیٹ پر کچھ صارفین کا ماننا ہے کہ ’حنیف قریشی اور اویس ربانی انجینئر محمد علی مرزا کو گھر تک چھوڑ کر آگئے ہیں‘۔
پریس کانفرنس میں مقرر اور میزبان نے یہ بھی کہا کہ ’انجینئر محمد علی مرزا آئندہ کسی بھی ہستی کے بارے میں بات کرنے سے گریز کریں اور وہ بس اب 26 نومبر کی تاریخ کو یاد رکھیں جسے دنیا کبھی نہیں بھولے گی‘۔
سوشل میڈیا صارفین علما کرام اور دیگر شخصیات نے اویس ربانی اور حنیف قریشی کو ’فاتح جہلم‘ کے لقب سے بھی نواز دیا اور کہا کہ آئندہ دونوں کو اسی نام سے یاد رکھا جائے اور تعارف بھی اسی لقب سے کروایا جائے۔