کراچی پولیس چیف کی ماتحت عملے پر گرفت کمزور پڑنے لگی، ایس ایس پی،ڈی ایس پی، ایس ایس ایچ اوز سمیت لیڈی پولیس اہلکاروں کے لوٹ مار کے واقعات سامنے آنے لگے۔
تین ماہ کے دوران کراچی میں محافظوں کی 13 لوٹ مار کی وارداتیں رپورٹ ہوئی جن میں 25 اہلکار گرفتار ہwuy اور سینکڑوں اہلکاروں و افسران کو پولیس حکام نے معمولی محکمانہ سزائیں دے کر مقدمات سے بچا لیا۔
تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل آئی جی کراچی خادم حسین رند کی تعیناتی کے بعد سے شہر بھر کی پولیس بے لگام ہو چکی ہے۔کراچی شہر میں لٹیروں سے لٹنے والے شہری اب محافظوں سے خوفزدہ نظر آنے لگے ہیں۔گزشتہ تین ماہ کے دوران پولیس نے کراچی میں 13 مقامات پر لوٹ مار کی وارداتیں کی جبکہ لوٹ مار،اغوا برائے تاوان کے درجنوں متاثرین کی درخواستیں اعلی پولیس حکام اور تھانوں میں دھول کی نظر ہو کر رہ گئی ہیں جبکہ ہزاروں متاثرین عدالتوں میں پولیس کے مظالم کیخلاف دھکے کھا رہے ہیں۔
17 ستمبر کو اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے لیڈی پولیس کانسٹیبل کی سر پرستی میں چلنے والا موٹر سائیکل لفٹر گینگ کے 2 ملزمان کو گرفتار کیا جن کی شناخت عامر اور خالد کے نام سے ہوئی۔
انکشاف ہوا کہ ملزمان کی سرپرستی کرنے والی لیڈی کانسٹیبل وردہ عائشہ ملزمان کی ضمانت اور پکڑے جانے پر رہائی کےلیے ہر ممکن اقدام کرتی تھی،وردہ عائشہ ملزم عامر کی اہلیہ ہے،ملزم عامر پر 30 سے زائد مقدمات پنجاب میں درج ہیں مگر تاحال پولیس لیڈی کانسٹیبل کو گرفتار نہ کر سکی۔
خادم حسین رند کی تعیناتی کے بعد سے کراچی پولیس جیسے بے لگام سی ہو گئی ہے،کورنگی میں 22 ستمبر کے روز پولیس اہلکاروں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے شہری سے رقم لوٹی جس پر ایس ایس پی کورنگی نے ایکشن لیا اور واردات میں ملوث اہلکاروں انور،جنید،شہاب،اور ظاہر کیخلاف عوامی کالونی تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا۔
رواں سال ماہ اکتوبر کی 6 تاریخ کو سچل تھانے کے پولیس اہلکاروں نے نجی بینک کے منیجر اور اسکی فیملی سے اسلحے کے زور موبائل فون اور نقدی لوٹ لی تاہم متاثرا شہری کی فریاد پر محافظوں نے موبائل فون واپس کر دیا اور فرار ہوگئے، شہری کی درخواست پر سچل تھانے میں پولیس اہلکار سرمد سندھی،عبدالرحمان،ممتاز،شاہ مقصود اور محمد زبیر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
اسی طرح 13 اکتوبر کے روز گلستان جوہر کے رہائشی وقاص نامی شہری کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں اس نے بتایا کہ اس کا بھائی جو کہ دبئی سے کراچی آیا ہوا تھا اور وہ ڈیفنس کے علاقے میں بچے کی ولادت پر مٹھائی تقسیم کرنے کیلئے گھر سے نکلے تھے کہ ڈیفنس میں عائشہ مسجد کے قریب پولیس موبائل نے انہیں روکا،تلاشی کے دوران پولیس اہلکاروں نے متاثرہ شہری سے ایک گٹکے کی پڑیا برآمد کر لی اور اس کے عوض 50 ہزار رشوت دینے کا مطالبہ کیا۔
متاثرہ شہری کے پاس رقم موجود نہ ہونے پر اہلکاروں نے اے ٹی ایم سی رشوت نکلوا کر دینے کا کہا اور پولیس موبائل میں سوار 8 اہلکار متاثرا شہری کو رات گئے ضلع جنوبی کی سڑکوں پر گھماتے رہے۔ بعد ازاں 42 ہزار روپے لے کر اسے چھوڑ دیا۔ 14 اکتوبر کو گلستان جوہر میں گیسٹ ہاؤسز خاتون ایس ایچ او شازیہ ميمن نے گیسٹ ہاؤسز پر چھاپے مارے اور چھاپوں کے دوران 10 خواتین اور 13 مردوں کو گرفتار کیا بعد ازاں انہیں رشوت لے کر رہا کیا گیا۔
یہ معاملہ جب اٹھا تو انکوائری شروع ہوئی جس میں انکشاف سامنے آیا کہ پرائیویٹ شخص بیٹر محمد قیصر اور برطرف پولیس افسر گل احمد کے ساتھ خاتون ایس ایچ او چھاپے مارتی تھی۔ قیصر کے خلاف تھانہ زمان ٹاؤن اور برطرف پولیس افسر گل احمد کے خلاف تھانہ کورنگی انڈسٹریل ایریا میں مقدمہ درج ہے۔
کراچی میں خواتین پولیس اہلکار بھی لوٹ مار کی وارداتوں میں ملوث
انکوائری میں شازیہ ميمن نے چھاپے کے دوران 5 ہزار روپے،کمپیوٹر اور کچھ لیپ ٹاپ برآمد ہونے کا ذکر کیا،چھاپے کے دوران 1 لاکھ 59 ہزار روپے کی رقم برآمد ہوئی جو ایس ایچ او نے اپنی سیٹ کے نیچے ڈال دی۔ گیسٹ ہاؤس میں غیر اخلاقی حرکات کی اطلاعات محمد قیصر اور گل احمد نے ایس ایچ او وومن کو دیں، منصوبہ بندی سے تمام رقم کو غائب کردیا گیا۔
چھاپوں کے دوران برطرف پولیس افسر نے ویڈیو بنائی جو کے بعد میں گرفتار ملزمان کو بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کی گئی، ملزمان کو کمروں کی ویڈیو دیکھا کر پیسے مانگے جاتے رہے۔18 اکتوبر کو ڈی ایس پی عمیر باجاری کے خلاف جوس سینٹر کے مالک عبدالرشید کی شکایت بھی سامنے آگئی۔
رخشاں تھانے میں درخواست میں یہ انکشاف ہوا کہ عمیر باجاری کی اسپیشل ٹیم نے 18 اکتوبر کو واردات کی تھی۔درخواست گزار عبدالرشید نے کہا تھا کہ 18 اکتوبر رات 11 بجے سرکاری موبائل دکان پر آئی، اہلکار دکان سے 1 لاکھ 75 ہزار کے امپورٹڈ سگریٹ لے گئے۔
جوس سینٹر کے مالک عبدالرشید نے بتایا کہ میں نے 15 پر فون کیا اور تھانے میں درخواست جمع کرادی، ڈی آئی جی ساوتھ کو شکایت کی تو مجھے ایس پی کلفٹن کے پاس بھیج دیا اور ایس پی ظفر صدیقی نے مجھے ڈی ایس پی عمیر باجاری کے پاس بھیجا۔
درخواست گزار نے کہا کہ عمیر باجاری کے آفس گیا تو انہوں نے کہا کہ اتنا مال نہیں ہے تمہارا، 30 ہزار کا مال اور 50 ہزار کیش لو معاملہ ختم کرو، میں نے مجبوری میں ہاں کی، مجھ سے کاغذات پر دستخط بھی کرائے۔ محافظوں کی لوٹ مار کی وارداتوں کی کہانی صرف یہیں تک محدود نہیں ہیں،
ڈی ایس پی عمیر بجاری کی ڈکیتی کی خبریں میڈیا کی زینت بنی تو ڈکیتی کیس میں گرفتار زیر تربیت ڈی ایس پی عمیر طارق باجاری کی مزید 2 وارداتوں کے شواہد سامنے آگئے۔ 24 اکتوبر کی رات گلشن اقبال، سہراب گوٹھ میں شہری کے 2 گھروں میں بھی ڈی ایس پی نے کارندوں کے ہمراہ مبینہ لوٹ مار کی تھی۔
ڈی ایس پی نے 15 سے زائد اہلکاروں کو واردات میں استعمال کیا۔شہری کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر سہراب گوٹھ لایا گیا۔ متاثرہ شہری نے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔ شہری کا کہنا ہے کہ پولیس پارٹی آنکھوں پر پٹی باندھ کر بوٹ بیسن تھانے لائی، ڈیڑھ گھنٹہ تفتیش کےبعد شیریں جناح کالونی چوکی منتقل کیا،پھر 28 اکتوبر کو چھوڑا گیا۔
شہری منصور شیخ کا کہنا ہےکہ آئی جی سندھ سمیت اعلیٰ حکام کو درخواستیں دے چکے، پٹیشن بھی دائر کی، نقدی، پرائز بانڈ، 2 قیمتی گھڑیاں، موبائل فونز، پستول، گولڈ لاکٹ اور دیگر سامان واپس نہیں ملا۔
نومبر کی 9 تاریخ کو محافظوں نے گلبرگ کے علاقے میں گھر میں گھس کر (amazone) کا کام کرنے والے نوجوان اور اس کی ٹیم کو اغوا کر لیا اور گارڈن ہیڈ کوارٹر لے گئے۔ متاثرہ نوجوان حمزہ نے بتایا کہ 10 کے قریب افراد نے خود کو سی ٹی ڈی اہلکار ظاہر کیا اور فلیٹ میں داخل ہو کر ہمارے ليپ ٹاپ تحویل میں لے کر ہمیں پولیس موبائل میں بٹھا کر گارڈن ہیڈ کوارٹر لے گئے اور رہائی کے عوض ہم سے 7 لاکھ روپے کیش اور تین لاکھ روپے کی رقم آن لائن ٹرانسفر کروا کر ہمیں چھوڑ دیا۔
متاثرہ نوجوان نے بتایا کہ واقع سے متعلق درخواست لے کر گلبرگ تھانے گئے تو پولیس نے نہ درخواست لی اور نہ ہی مقدمہ درج کیا۔ رواں ماہ کی 11 تاریخ کو سعید آباد 24 کی مارکیٹ میں باوردی پولیس اہلکاروں نے سنار کے گھر میں لوٹ مار کی کوشش کی تاہم مزاحمت کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار زخمی حالت میں گرفتار کر لئے گئے۔
متاثرہ شہری فہد سلیم نے مدینہ کالونی پولیس کو بتایا کہ 2 باوردی اہلکاروں نے رات گئے میرے گھر کا دروازہ بجایا اور کہا کہ ہمیں اطلاع ملی ہے آپ کے گھر میں منشیات موجود ہے اور ہم گھر کی تلاشی لینا چاہتے ہیں اور پھر اہلکاروں نے گھر میں داخل ہو کر میرا موبائل فون اٹھا لیا جس کے بعد میرے شور شرابے سے پولیس اہلکار گھر سے باہر نکل گئے اور علاقے کے سیکورٹی گارڈ کی فائرنگ سے 2 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے جبکہ ان کے تین ساتھی موٹر سائیکل پر فرار ہوگئے۔
مدینہ کالونی پولیس نے شہری کی شکایت پر پولیس اہلکار گلشیر اور دیگر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ اسی طرح 15 نومبر کے روز کورنگی میں شعبہ تفتیش کے اہلکار ایک کیس کے سلسلے میں خیر پور گئے تو کراچی واپس آتے دوران کمسن بچے سے بكرا چھین کر گاڑی میں ڈال لیا،رانی پور کے مقام پر اہل علاقہ نے پولیس موبائل کو گھیر کر 15 مددگار پولیس کو اطلاع دی جس کے بعد رانی پور تھانے میں اے ایس آئی اور 5 اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
19 نومبر کو اورنگی ٹاؤن نمبر 5 میں پولیس یونیفارم میں ملبوس ڈاکو گھر سے 2 کروڑ روپے، 70سے 80 تولہ سونا اور دیگر قیمتی سامان لوٹ کر فرار ہوگئے۔متاثرین کے مطابق 15 سے زائد باوردی ملزمان پولیس موبائل، پک اپ کار اور موٹرسائیکلوں پرسوار تھے جنہوں نے واردات کے بعد گھر کے افراد کو بھی حراست میں لے لیا اور بعد ازاں انہیں بلوچ کالونی پل پراتار دیا۔
واقعہ پر آئی جی سندھ نے نوٹس لے لیا اور تحقیقات کا حکم دیا تاہم ڈی آئی جی عاصم قائم خانی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی نے ایس ایس پی ساؤتھ عمران قریشی،زیر تربیت ڈی ایس پی ڈیفنس عمر بجاری سمیت 15 سے زائد پولیس اہلکاروں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے جس پر آئی جی سندھ نے ایکشن لیتے ہوئے ایس ایس پی ساؤتھ عمران قریشی کو عہدے سے ہٹا کر سینٹرل پولیس آفس کلوز کر دیا اور واردات میں براہ راست ملوث ڈی ایس پی یو ٹی عمر بجاری کو معطل کر کے ان کے خلاف پیراباد تھانے میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔
21 نومبر کے روز کورنگی نمبر 4 کی غریب نواز چوکی کے اہلکاروں نے شہری ممتاز کو چیکنگ کے بہانے روکا اور انکی جیب میں موجود نقدی طلائی زیورات لوٹ لئے۔ متاثرہ شہری نے بتایا کہ 21 نومبر کی شام کو میں لی مارکیٹ سے اپنے گھر آرہا تھا کہ راستے میں غریب نواز چوکی کے پولیس اہلکاروں نے مجھے روک لیا اور میری جیب میں 18 ہزار روپے نقد رقم اور طلائی زیور مجھ سے چھین لئے اور مجھے بند کردیا۔
بعد ازاں میرے گھر والوں کو فون کیا اور کہا کہ 50 ہزار روپے لیکر آؤ ورنہ اسے ہم پولیس مقابلے میں زخمی کر دیں گے تاہم پولیس نے میری اہلیہ سے 25 ہزار لے کر مجھے صبح 4 بجے رہا کر دیا۔واقع پر ایس ایس پی کورنگی نے چوکی انچارج کو معطل کردیا۔
24 نومبر کو کراچی میں مبینہ پولیس اہلکاروں کی ڈکیتی کا ایک اور واقعہ سامنے آگیا۔ بلوچ کالونی پل پر 3 باوری اہلکاروں سمیت 5 ملزمان مال سے بھری سوزوکی لوٹ کر فرارہوگئے،درخواست گذار عمران کے مطابق سوزوکی میں 5 لاکھ سے زائد مالیت کا سامان تھا،متاثرہ شخص نے ٹیپوسلطان تھانے میں درخواست دے دی۔
دوسری جانب کورنگی کراسنگ پرسوزوکی کھڑی ہوئی ملی لیکن گاڑی سے پورا مال،لوہے کا جنگلا اور بیٹری تک غائب تھی۔اس واقع پر وزیر اعلی سندھ جسٹس ر مقبول باقر نے نوٹس لیتے ہوئے اعلی پولیس حکام کو جلد از جلد ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا مگر کراچی پولیس واردات میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرنے میں تاحال ناکام ہے۔
خادم حسین رند کی سربراہی میں پولیس صرف ڈاکے نہیں مارتی منشیات بھی فروخت کرتی ہے یہ انکشاف تب سامنے آیا جب بلدیہ ٹاؤن پولیس نے ایک ہی ماہ میں منشیات فروشی کے الزام میں شعبہ تفتیش کے ہیڈ کانسٹیبل عبدالله کو 105 گرام آئس سمیت گرفتار کیا۔
ملزم کی آئس بیچنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس پر پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے ہیڈ کانسٹیبل کو گرفتار کرلیا،دوسری کاروائی میں بلدیہ پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے پولیس اہلکار ماجد کو گرفتار کر کے آئس برآمد کر لی مذکورہ اہلکار پارٹ ٹائم منشیات فروشی کا دھندہ کرتا تھا۔پولیس اہلکاروں کے یکے بعد دیگر لوٹ مار،اغوا برائے تاوان،منشیات فروشی میں ملوث ہونے کے واقعات پر سربراہ کراچی پولیس کی گرفت کمزور نظر آنے لگی ہے جس کے باوجود اعلی پولیس حکام ان واقعات کی روک تھام کیلئے تاحال کوئی حکمت عملی ترتیب دینے سے قاصر ہیں۔