کراچی: شہر قائد میں ایک طرف تو جرائم بڑھ رہے تو جبکہ دوسری طوف پولیس کے سربراہ ان کی شرح میں کمی کا مسلسل دعویٰ کرتے نظر آرہے ہیں۔
سی پی ایل سی کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماہ نومبر میں صرف کراچی میں پانچ ہزار سے زائد جرائم کی وارداتیں ہوئیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ماہ نومبر کے دوران شہر کے مختلف علاقوں سے شہریوں سے مسلح افراد نے 2 ہزار 272 موبائل چھینے، 4 ہزار 30 موٹرسائیکلیں چوری ہوئیں اور 694 چھینی گئیں، جبکہ 163 گاڑیاں چوری اور 26 چھینی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق ایک ماہ کے دوران مزید 52 شہری جاں بحق جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔ دو اغوا برائے تاوان اور 13 بھتہ خوری کی وارداتیں بھی رپورٹ ہوئیں۔
آئی جی سندھ رفعت مختار نے پولیس میں تفتیش کے نظام کی ناقص کارکردگی کا خود ہی پول کھولتے ہوئے انکشاف کیا کہ 9 ہزار گرفتار اسٹریٹ کرمنلز میں میں سے 95 فیصد چھوٹ گئے ہیں۔
کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے آئی جی سندھ نے ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ شہر میں لوٹ مار کی وارداتوں میں کمی آئی ہے۔ انہوں نے اس کمی کی وجہ پولیس کی جانب سے کی جانے والی تابڑ توڑ کارروائیوں اور آپریشریز کو قرار دیا۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی میں ایک ماہ کے دوران 9 ہزار اسٹریٹ کرمنلز گرفتار کیے گئے جن میں سے 95 فیصد رہا ہوگئے۔ آئی جی سندھ کا یہ انکشاف شہریوں کیلیے مزید تشویش کا باعث بن رہا ہے کیونکہ شہری یومیہ بنیادوں پر لوٹا ماری کی وارداتیں اور ڈکیتوں کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔
ایک ہفتے کے دوران ڈکیتوں نے مزید چار جانیں لے لیں جن میں ایک محنت کش فوڈ پانڈا رائیڈر بھی شامل تھا، جبکہ ایک روز قبل گلستان جوہر میں گاڑی نہ روکنے پر ڈکیتوں نے فائرنگ کر کے این ای ڈی سے فارغ نوجوان انجینئر کو زخمی کیا، جو دوران علاج دم توڑ گیا۔ شہر میں اگر رواں سال کے دوران ڈکیتی مزاحمت پر قتل و غارت کی بات کی جائے تو اب تک رپورٹ ہونے والے واقعات میں 127 شہری ڈکیتوں کی گلیوں کا نشانہ بن کر ابدی نیند سوچکے ہیں جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے جن میں سے درجنوں زندگی بھر کیلیے معذور بھی ہوگئے ہیں۔