متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے شدید تحفظات پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صوبائی الیکشن کمشنر اعجاز چوہان کا بلوچستان تبادلہ کردیا۔
تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سندھ اور بلوچستان کے الیکشن کمشنرز کے تبادلے کا نوٹی فکیشن جاری کیا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق سندھ میں او پی ایس پر تعینات گریڈ 20 کے افسر اعجاز انور چوہان کا تبادلہ کرکے انہیں الیکشن کمشنر بلوچستان تعینات کردیا گیا ہے جبکہ گریڈ 21 کے الیکشن کمشنر بلوچستان شریف اللہ کو الیکشن کمشنر سندھ لگادیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں الیکشن کمیشن نے ترقی پانے والے 7 افسران سمیت 11 افسران کے تبادلے اور تقرری کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔
ضلع کورنگی کے مانیٹرنگ افسر خدا بخش کو ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر ملیر، جمشید خان کو کے پی کے الیکشن کمیشن آفس سے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر لوئر دیر، ڈی ای سی لوئر دیر محمد اقبال کو ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر ملتان جبکہ پشاور سے مانیٹرنگ افسر سارہ خان کا ڈی آئی خان تبادلہ کردیا گیا ہے۔
قبل ازیں ایم کیو ایم پاکستان کے کنونیئر خالد مقبول صدیقی نے ہنگامی پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات میں ہونے والی مہم جوئی کا سب سے زیادہ شکار پاکستان کا معاشی حب کراچی رہا جو ناصرف اپنے حقیقی نمائندوں سے محروم کر دیا گیا بلکہ ایسے لوگوں کو مسلط کیا گیا جن کا تعلق اس شہر سے کبھی تھا ہی نہیں۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اراکین رابطہ کمیٹی کے ہمراہ مرکزی انتخابی دفتر پاکستان ہاؤس میں منعقد پُرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے پانچ سالوں سے اپنے حقیقی نمائندوں سے محروم سندھ کے شہری علاقے جلد اور شفاف انتخابات کا متقاضی ہیں، اس وقت قابلِ قبول اور غیر جانبدارانہ انتخابات ملک میں موجود جمہوریت سمیت معاشی، سماجی، اور سیاسی استحکام کے لئے ناگزیر ہیں، انتخابات کا شفاف ہونا اور شفاف نظر بھی آنا نہایت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کا اس شہر سے ڈر کا نہیں درد کا رشتہ ہے جب بھی اِس شہر پر مصنوعی قیادت کو مسلط کرنے اور مزید ناانصافیوں کے امکانات ہوتے ہیں، ایم کیو ایم ہر میسر پلیٹ فارم پر کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کا مقدمہ لڑتی نظر آئے گی، ایک بار پھر سندھ کے شہری علاقوں کو اُن کے حقیقی مینڈیٹ سے محروم کرنے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان وقتاً فوقتاً اپنے خدشات كا اظہار تمام جمہوری طریقۂ کار پر رہتے ہوئے کرتی رہی ہے، محض انتخابات ہی نہیں قابلِ قُبول انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی زمہ داری ہے مگر حساس عہدوں پر بیٹھے جانبدار افراد کے رہتے یہ ممکن نظر نہیں آرہا۔
انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ صوبائی چیف الیکشن کمشنر اعجاز چوہان صاحب اور نثار درانی کی موجودگی میں سندھ میں شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کا امکان دیوانے کا خواب ثابت ہونگے، بلدیاتی انتخابات میں ان افراد کی کارکردگی اِس بات کا واضح ثبوت ہے اور ایم کیو ایم پاکستان دھاندلی زدہ افراد کی موجودگی میں سندھ کے عام انتخابات کے انعقاد کو کسی صورت تسلیم نہیں کرے گی۔
ایم کیو ایم کنونیئر نے کہا کہ نثار درانی پیپلز پارٹی کے حلف یافتہ کارکن ہیں اور اہم رہنما کے رشتے دار ہیں، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ ایک بار پھر زبردستی مسلط کی جانے والی کسی بھی مصنوعی قیادت اور مینڈیٹ پر شبِ خون مارنے کو یہ شہر تسلیم نہیں کرے گا، پندرہ سالوں میں کی جانے والی کرپشن کے پیسوں، سیاسی دخل اندازی سے کراچی اور حیدرآباد کی مقامی حکومتوں پر قابض مینڈیٹ کے دعویدار یہاں کے نمائندے نہیں ہیں، موجودہ صوبائی نگران حکومت بھی گزشتہ پندرہ سالوں کی متعصب بدعنوان طرز حکمرانی کا تسلسل ہے ہمیں الیکشن کمیشن میں مناسب سنوائی نا ملنے کے بعد ہم نے مجبوراً عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے عدالتوں میں بھی انصاف اگر محتاج نظر آیا تو سندھ کے شہری علاقوں کے لوگ ایم کیو ایم کو بتائیں کہ کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان نگران وزیراعظم پاکستان سے بھی یہ مطالبہ کرتی ہے کہ آپ کی اہم منصب پر موجودگی کا مقصد پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کو تمام سیاسی جماعتوں کے لئے قابلِ قبول بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے تاکہ مُلک حقیقی جمہوریت کی جانب گامزن ہو سکے۔
سینئر ڈپٹی کنوینر سیّد مصطفٰی کمال نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے وقت سے صوبائی الیکشن کمیشن کے مشکوک کردار پر پچھلے ایک سال سے سوال اُٹھا رہی ہے دُنیا نے دیکھا کہ بلدیاتی انتخابات میں کچے کے ڈاکوؤں نے سندھ میں پولنگ اسٹیشنز پر حملہ کر کے انتخابی عملے کو اغواء کر لیا اور پولنگ باکس اپنے ساتھ لے گئے اور انتخابی عمل کے ختم ہونے کے وقت پر باکس واپس بھی لاکر رکھ دیئے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُن باکسسز سے برآمد ہونے والے ووٹ پیپلز پارٹی کے نکلے، دوسرے مرحلے میں کراچی میں سڑکوں پر بیٹھ کر پیپلز پارٹی کے نشان پر ٹھپے لگائے گئے ستم ظریفی یہ کہ الیکشن کمیشن بنا کسی تحقیقات کے پیپلز پارٹی کی کامیابی کا اعلان کر دیتا ہے، تمام شواہد کے ہونے کے باوجود اِس تمام معاملے کی درست تحقیقات کروانے کے بجائے صوبائی الیکشن کمیشن سندھ میں عام انتخابات کروانے جارہا ہے۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ حلقہ بندیوں پر سوائے پیپلز پارٹی کے تمام جماعتوں کے اعتراضات مسترد کردیئے گئے، یہ اتفاق نہیں بلکہ صوبائی الیکشن کمشنر کی جانبدار ہونے کی دلیل ہے الیکشن کمیشن کیا عام انتخابات کو بھی متنازع بنانا چاہتا ہے کیا پاکستان اِس بات کا متحمل ہو سکتا ہے کے 2018ء میں کیئے گئے تجربے کو دوبارہ دہرایا جائے؟