شہرقائد کے بلدیاتی ادارو ں میںجاری کرپشن ،گھوسٹ ملازمین سمیت سیاسی وافسرشاہی بیوروکریسی نے جتنا نقصان پہونچایا اسکا بارہا ذکرہوچکا ہے سیاسی مفادات کے ذاتی حصول نے کے ڈی اے سمیت دیگر بلدیاتی اداروں کو تباہی کے دھانے پرپہونچادیاہے افسوناک صورتحال تو یہ ہے کہ ادارہ ترقیات کراچی کی خود مختار حیثیت شہریوں کیلئے کوئی خوشی لانے کا سبب نہیں بن سکی ہے ،ادارہ ترقیات کراچی اپنے بنیادی کام سے ہٹ کر تمام ہی کام کررہا ہے اور جو ترقیاتی کام کے ڈی اے کے سر انجام دئیے جارہے ہیں اس میں معیار کے حوالے سے شہری مطمئن نہیں دکھائی دے رہے ہیںادارہ ترقیات کراچی کو کے ایم سی سے علیحدہ ہوئے دس سال سے زائدکا عرصہ گزچکا ہے لیکن ادارہ ترقیات کراچی تباہی کی جانب محوپرواز ہے
واضع رہے کہ جسٹس ندیم اختر کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے یہ ریمارکس دیئے تھے کہ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے )غیر ضروری، بے کار اور نکما ترین ادارہ ہے اس حوالے سے المیہ یہ بھی ہے کہ ادارے میں موجود یونینزبھی اپناکردار ادا کرنے کے بجائے اقرباپروری کامظاہرہ کررہی ہیں ادارے میں کرپشن کی نئی داستانیں رقم ہورہی ہے ورک چارج اور کنڑیکٹ ملازمین کیلیئے یونینز سمیت انتظامیہ کاکردار منافقانہ طرز فکرکی جانب نشاہدہی کررہاہے ادارہ ترقیات کراچی میں ملازمین کے حوالے سے کچھ خاص وقت کے لیئے آوازیں ضرور بلندہوتی ہیں لیکن پھرلمبی مفاداتی خاموشی بھی ہوجاتی ہے بدترین نااہلی کی اس بڑی اور کیا مثال ہوگی کہ متعدد ڈی جی یہاں آئے اور چلے گئے لیکن کسی کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ شہریوں کیلئے سستی رہائشی اسکیمیں متعارف کرواسکیں سندھ حکومت کے ساتھ نورا کشتی نے کے ڈی اے کی ساکھ کو برباد کرنے میں اہم کردار کیا ہے
ادارہ ترقیات کراچی کا یہ اہم ترین فریضہ ہے جس سے اجتناب برتنا قبضہ مافیا کیلئے جنت بنتا جارہا ہے قبضہ مافیا کھلے عام کرپٹ افسران کی ملی بھگت سے زمینیں ٹرانسفر کروا کر بیچنے میں مصروف ہیں جبکہ ادارہ ترقیات کراچی کی توجہ زمینوں کو شہریوں کیلئے استعمال میں لانے کے بجائے ترقیاتی کاموں کی جانب توجہ مبذول ہے جبکہ یہ کام اس کا ہے بھی نہیں لیکن کے ایم سی اور ٹی ایم سیز کو ترقیاتی کاموں کی انجام دہی سے محروم بنا کر ترقیاتی کاموں کیلئے ادارہ ترقیات کراچی کو فعال کرنا سمجھ سے بالاتر دکھائی دے رہا ہے اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے کچھ ٹی ایم سیز نے ادارہ ترقیات کراچی کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا ہیاور انہوں نے ادارہ ترقیات کراچی کو سختی سے پابند کیا ہے کہ وہ ٹی ایم سیز کے کاموں میں مداخلت نہ کریں
خاص طور پر لوکل ٹیکسز کے معاملات میں مداخلت پر ٹی ایم سیز ادارہ ترقیات کراچی کی حیثیت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اب یہ سلسلہ مرحلہ وار صفورا ،سرجانی ،گلشن اقبال ودیگر ٹائونز تک وسیع ہو رہا ہے.ادارہ ترقیات کراچی کے اعلی افسران کو بھی اب سوچنا چاہیئے کہ وہ مداخلت کرنے کے بجائے اپنے بنیادی کام پر توجہ دیں اور شہریوں کیلئے رہائشی اسکیموں کو متعارف کروانے کی جانب توجہ مبذول کریں تاکہ شہر کی ترقی میں ان کا جو کردار ہے وہ ادا ہو سکے اس طرح کے ایم سی اور ٹی ایم سیز کے کاموں میں مداخلت سے معاملات رسہ کشی کی طرف جائیں گے جو شہر کیلئے اچھا نہیں ہے اب سندھ حکومت میں پیپلز پارٹی پھر آچکی ہے اور کراچی کا مئیر بھی پیپلز پارٹی سے ہے ا سندھ حکومت کو خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ قانونی لحاظ سے جس کی جو ذمہ داری ہے وہ اس کے سپرد کی جائے کے ایم سی اور ٹی ایم سیز شہر میں ترقیاتی ترقی کے ادارے ہیں لہذا ادارہ ترقیات کراچی کے بجائے کے ایم سی اور ٹی ایم سیز سے ترقیاتی کام لینے چاہیئں جبکہ ادارہ ترقیات کراچی کو سختی سے پابند کرنا چاہیئے کہ وہ دیگر کام ایک حد میں ضرور کریں لیکن شہریوں کیلئے رہائشی اسکیمیں متعارف کروا کے ثابت کریں کہ ان کا ادارہ اپنا کام بخوبی سر انجام دے رہا ہے لیکن شدت سے یہ بات محسوس کی جارہی ہے کہ ادارہ ترقیات کراچی اپنے اصل اہداف سے دور ہوتا جارہا ہے