’زندگی موت فرعونوں کے نہیں اللہ کے ہاتھ میں ہے، میری قبر کو شرمسار مت ہونے دینا، ہمیشہ حق کی راہ پر چلنا اور شہادت کی موت کی تمنا رکھنا کیونکہ شہید دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوتا ہے‘۔
یہ وصیت جمعے کے روز ایک قاتلانہ حملے کے بعد پانچ دن تک زندگی اور موت کی جنگ لڑنے والے سندھ کے علاقے میر پور ماتھیلو کے ایک صحافی نصر اللہ گڈانی نے چار جنوری کو اپنے بچوں کو کی تھی جو روزنامہ عوامی آواز اخبار سے منسلک تھے۔
سندھ کے ضلع گھوٹکی کے علاقے میرپور ماتھیلو سے تعلق رکھنے والے صحافی نصر اللہ گڈانی کو پانچ روز قبل ایک ویڈیو بنانے کے دوران نامعلوم افراد نے فائرنگ کا نشانہ بنایا تھا۔ اس ویڈیو میں وہ ایک پروٹوکول کی عکس بندی کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ یہ وڈیرے کا پروٹوکول ہے۔
اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ نصر اللہ گڈانی نے پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن سندھ اسمبلی کی ویڈیو بنائی اور کچے کے ڈاکوؤں سے تعلقات کو بے نقاب کیا تھا۔
اپنی بے باکی اور عوام کے حقوق کے لیے متحرک صحافی نصر اللہ گڈانی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے کراچی کے نجی اسپتال میں جمعے کے روز انتقال کرگئے، جن کے جنازے کا گھوٹکی میں شاندار استقبال کیا گیا۔
امریکا میں مقیم صحافی امتیاز چانڈیو نے دعویٰ کیا ہے کہ نصر اللہ گڈانی کے قتل میں ایس ایس پی گھوٹکی ملوث ہیں کیونکہ مقتول صحافی نے چار پانچ روز قبل اُن کی کرپشن کے حوالے سے ویڈیو اپ لوڈ کی تھی۔
شہید صحافی کی بیٹوں کو نصیحت
نصر اللہ گڈانی کے فیس بک اکاؤنٹ کا جائزہ لیا جائے تو اُن کی پوسٹیں اور خبریں عوامی مفادات کی ترجمانی تھیں۔ نیا سال شروع ہونے کے موقع پر انہوں نے اپنے بچوں کے ہمراہ چار جنوری کو تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا تھا ’آج کے شام کی ایک تصویر‘ اس پوسٹ میں انہوں نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی کہ ‘خود کو سندھ دھرتی کا سپوت ثابت کرنا اور میری قبر کو شرمسار ہونے مت دینا، زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، رب کے سامنے ان فرعونوں کی کوئی مجال نہیں ہے‘۔
انہوں نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی تھی کہ ’ہمیشہ حق کی راہ پہ چلنا. ہر حال میں سندھ کی بقاء کے لیئے جدوجہد اور مظلوموں کی حمایت جاری رکھنا، بیماریوں اور حادثوں میں انسان کی موت ہو جاتی ہے مگر ہميشہ شہادت کے موت کی تمنا رکھنا، بیشک حق کی راہ پہ چلنے والے دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوتے ہیں‘۔
نصر اللہ گڈانی کو پانچ روز قبل قاتلانہ حملے کے بعد گھوٹکی اسپتال لایا گیا، جس کے بعد انہیں رحیم یار خان کے شیخ زید میڈیکل اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دو روز تک زیر علاج رہے تاہم اس دوران مسلسل طبیعت بگڑتی رہی جس کے بعد وزیراطلاعات شرجیل میمن نے نوٹس لیتے ہوئے انہیں کراچی کے نجی اسپتال منتقل کروانے کی ہدایت کی۔
نصر اللہ گڈانی کو سندھ حکومت کی ہدایت پر ایئرایمولینس کے ذریعے رحیم یار خان سے کراچی منتقل کیا گیا تھا۔
شرجیل میمن نے اعلان کیا تھا کہ صحافیوں کی بقا اور آزادی کیلیے پیپلزپارٹی ہمیشہ سے کھڑی ہے، نصر اللہ گڈانی ایک بہادر اور نڈر صحافی ہے، جس کے تمام علاج و معالجے کی ذمہ داری سندھ حکومت اٹھائے گی۔ وزیر اطلاعات کی ہدایت پر صحافی کو کراچی منتقل کیا گیا جہاں وہ دو روز تک زیر علاج رہے اور جمعے کی صبح خالق حقیقی سے جاملے۔
صحافی کی شہادت کی اطلاع نے جہاں گھر والوں پر غم کے پہاڑ توڑے وہیں صحافتی برادری بھی شدید مشتعل ہوئی اور سندھ اسمبلی میں اجلاس کے دوران احتجاج کیا۔ جس پر وزیر داخلہ سندھ ضیا اللہ لنجار اور وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے صحافیوں سے مذاکرات کیے اور انہیں کیس کی پیشرفت سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ قتل میں ملوث تین افراد گرفتار ہوئے ہیں، جن سے اہم انکشافات کی توقع ہے اور امکان ہے کہ ایک ہفتے میں کیس میں بڑی پیشرفت ہو‘۔
’مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے جو لوگوں کیلیے لڑتا رہا‘
نصر اللہ گڈانی کی موت پر والدہ نے بیٹے کے مان اور بے باکی کو غالب رکھتے ہوئے اپنا غم چھپایا اور پیغام دیا کہ ’نصر اللہ گڈانی لوگوں کیلیے لڑتا رہا جبکہ بچے رات میں کٹوریاں لے کر محلے میں جاتے تھے، میرا بیٹا بہادر تھا جو کوئی گھر نہیں بناسکا، بچوں کے پاس چھت نہیں اور ہم غریب ہیں مگر مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے‘۔
کراچی یونین آف جرنلسٹ دستور کے سیکریٹری نعمت خان کا کہنا ہے کہ ’نصر اللہ گڈانی شہید پر حملے تک انہیں کوئی نہیں جانتا تھا، وہ اپنے علاقے کی ایک توانا آواز تھے اور گھوٹکی میں قائم فیکٹریوں سے علاقے کی ترقی میں حصہ ڈالنے کا مطالبہ کرتے تھے۔
’سیاستدان، گھوٹکی میں قائم سرکاری، غیر سرکاری فیکٹریوں کی انتظامیہ اور ڈاکو سب اُن سے ناخوش تھے، نصر اللہ گڈانی ایک حقیقی صحافی تھے اس لیے اُن کے بے شمار دشمن تھے اور گزشتہ سال انہیں ایم پی او کے تحت گرفتار بھی کیا گیا تھا‘۔
کے یو جے کا ہنگامی اجلاس، سندھ جرنلسٹس پروٹیکشن کمیشن کی ازسرنو تشکیل کا مطالبہ
اس ضمن میں کراچی یونین آف جرنلسٹس کا ہنگامی اجلاس صدر طاہر حسن خان کی زیر صدارت ہوا جس میں جنرل سیکرٹری سردار لیاقت کشمیری ، نائب صدر وارث رضا، جوائنٹ سیکرٹری نعمت اللہ بخاری، عمران جونئیر ، خازن محمد ناصر،اراکین مجلس عاملہ ثروت جبیں، اختر شیخ، رضوان احد، ابوالحسن، ملک آفتاب سمیت پی ایف یوجے کے نائب صدر خورشید عباسی، خازن لالہ اسد پٹھان اور سینئر صحافیوں آغا خالد، ارباب چانڈیو اور چاند نواب نے شرکت کی۔
صدر کے یوجے طاہر حسن خان نے نصراللہ گڈانی پر قاتلانہ حملے کے بعد کراچی کے نجی اسپتال تک منتقلی کیلئے کے یوجے کی کاوشوں کے بارے میں بتایا۔ اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت سندھ اور شہید کا ادارہ عوامی آواز لواحقین کی اشک شوئی کیلئے دس، دس ملین معاوضہ دیں تاکہ شہید کے چار بچوں اور بیوہ کا گزر بسر آسانی سے ہوسکے۔
اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ پچیس مئی بروز ہفتہ چار بجے شہید نصراللہ گڈانی کے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے احتجاج کیا جائے گا۔ کے یوجے نے تشویش کا اظہار کیا کہ سندھ کے صحافی عدم تحفظ کا شکار ہیں جبکہ صحافیوں کے تحفظ کیلئے قائم سندھ جرنلسٹس پروٹیکشن کمیشن مکمل غیر فعال ہے۔
کے یوجے نے سندھ جرنلسٹس پروٹیکشن کمیشن کی ازسرنو تشکیل کا مطالبہ بھی کیا۔اجلاس میں یہ تجویز بھی سامنے ائی کہ سکھر میں سندھ بھر کے صحافیوں کا کنونشن منعقد کیا جائے جس میں صحافیوں کو تحفظ دینے کا مطالبہ کیا جائے۔
ایچ آر سی پی کا اظہار تشویش
ایچ آر سی پی نے ملک میں صحافیوں کو درپیش صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رواں سال میں مبینہ طور پر کم از کم تین صحافی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے ہیں۔
ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا کہ سندھ حکومت کو نصر اللہ گڈانی کے قتل کی تحقیقات کرنی چاہئے اور سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ کے نفاذ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرتے ہوئے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہئے۔
سندھ پارلیمانی رپورٹس ایسوسی ایشن کا احتجاج
گھوٹکی کے صحافی نصر اللہ گڈانی کے قتل پر سندھ پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کا سندھ اسمبلی میں شدید احتجاج کیا اور اجلاس سے علامتی واک آؤٹ کرتے ہوئے نصر اللہ گڈانی، جان محمد مہر کے قاتلوں کی فی الفور گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر کامران رضی نے کہا کہ سندھ میں صحافیوں کے قتل واقعات بڑھ رہے ہیں سندھ حکومت نوٹس لے۔