Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the wordpress-seo domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/zarayeco/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
ماضی کے اوراق:‌ جنرل ایوب خان کی سیاسی معاملات میں‌ مداخلت پر قائد اعظم نے کیا کہا تھا؟ |

ماضی کے اوراق:‌ جنرل ایوب خان کی سیاسی معاملات میں‌ مداخلت پر قائد اعظم نے کیا کہا تھا؟

ماضی کے اوراق:‌ جنرل ایوب خان کی سیاسی معاملات میں‌ مداخلت پر قائد اعظم نے کیا کہا تھا؟

ماضی کے اوراق : سردار عبدالرب نشتر نے ایوب خان کے بارے میں ایک فائل قائد اعظم کو بھجوائی تو ساتھ نوٹ میں لکھا کہ ایوب خان مہاجرین کی بحالی اور ریلیف کے بجائے سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔

اس پر قائد اعظم نے فائل پر یہ آرڈر لکھا: ’’ میں اس آرمی افسر (ایوب خان) کو جانتاہوں۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے ۔ اس کومشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا۔ ‘‘

(بحوالہ ’’ قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل‘‘ از قیوم نظامی)

قائد اعظم کا ایوب خان کے بارے میں غصہ بعد میں بھی ٹھنڈا نہ ہوا اور جب وہ ڈھاکہ گئے اور انھیں فوجی سلامی دی گئی تو انھوں نے ایوب خان کو اپنے ساتھ کھڑے ہونے سے روک دیا ۔

اس واقعہ کا تذکرہ کسی اور نے نہیں ایوب خان کے معتمد خاص اور ناک کے بال ،الطاف گوہر نے اپنی کتاب ’’ گوہرگزشت ‘‘ میں کیا ہے۔

اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ تقسیم کے زمانے میں امرتسر میں ہندومسلم فسادات پر قابو پانے کے لیے ایوب خان کو ذمہ داری سونپی گئی تو وہ مہاراجہ پٹیالہ کی کسی محبوبہ پر ایسے ریجھے کہ اپنے فرائض سے غفلت برتی، جس پر انھیں سزا کے طور پر ڈھاکہ بھیجا گیا۔

اپنی اس تنزلی پرایوب خان بجھ کر رہ گئے اور انھوں نے اپنے دوست بریگیڈیئر (تب) شیر علی خان پٹودی سے مدد کرنے کے لئے کہا۔ شیر علی خان پٹودی پہلی فرصت میں کراچی سے راولپنڈی گئے اور کمانڈر انچیف سر فرینک میسروی سے اپنے یار کی سفارش کی لیکن بات بنی نہیں۔

ایوب خان پر ہی بس نہیں تھا، قائد اعظم نے ایک اور فوجی افسر اکبر خان کے مشوروں سے زچ ہو کر اس سے کہا تھا کہ آپ کا کام پالیسی بنانا نہیں، منتخب حکومتوں کے احکامات کی تعمیل کرنا ہے۔

بانی پاکستان جون 1948 میں سٹاف کالج کوئٹہ گئے تو وہاں کہا کہ انھیں دو اعلیٰ فوجی افسروں کے ساتھ گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ انھوں نے جو حلف اٹھایا ہے وہ اس کے مضمرات سے لاعلم ہیں ۔ اس موقع پر انھوں نے اپنی لکھی ہوئی تقریر ایک طرف رکھ کے فوجی افسروں کو یاددہانی کے طور پر ان کا حلف پڑھ کر سنایا۔

قائد اعظم کے بعد اس حلف کی اتنی دفعہ خلاف ورزی ہوئی کہ ائیر مارشل اصغر خان کو لکھنا پڑا ’’میری تجویز ہے کہ اگر ہم پر جرنیلوں ہی نے حکمرانی کرنی ہے تو یہ الفاظ حلف سے حذف کردیے جائیں: ’’ْمیں کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں، خواہ ان کی نوعیت کچھ بھی ہو، حصہ نہیں لوں گا۔‘‘..

محمودالحسن کی تحریر سے