میڈیا ورکرز اور زندگی.. ایک اور سڑک پر آگیا

میڈیا ورکرز جو سب کو خبر پہنچانے کا کام کرتے ہیں وہ اپنی ڈیوٹی دیتے دیتے خود ایک دن خبر بن جاتے ہیں اور خالی ہاتھ گھر کو لوٹتے ہیں جبکہ ان کی محنت کی کمائی سے مالکان ایک نہیں دو چار بلکہ اس سے بھی زیادہ جائیدادیں بناتے ہیں۔

ایک اور ایسے میڈیا ورکر کی کہانی سامنے آئی جس نے تندہی سے اپنے پیشہ وارانہ امور انجام دیے اور آج وہ بچوں کی چیزیں گلی گلی بیچ کر اپنے گھر والوں کا گزر بسر کررہا ہے۔

حمید بھٹو نے اپنے فیس بک پر ایک ایسی دل چیر دینے والی کہانی لکھی۔

’آج رات کو دیر سے فیز ٹو میں قابل احترام میڈیا کے دوستوں محمد علی ابڑو، ضمیر ڈھیتوم خادم کلھوڑو کے ساتھ چائے کے ہوٹل پر بیٹھے تھے کہ اچانک اس دوست نے آواز دی، تو میں نے اوپر دیکھا کہ یہ نوجوان گردن میں تھیلا لیکر چیزیں بیچ رہا تھا تو اس نے میرے دیکھتے ھے کہا کہ حمید بھٹو مین شاoد قمبرانی پرانا کیمرہ مین، تو مجھے ایکدم جھٹکا لگا اور اس سے ملا تو اسکو وہاں ساتھ بٹھا لیا اور پھر ہماری گفتگو شروع ہوئی۔‘

شاہد قمبرانی 15 سال سے زائد ایک نجی ٹی وی چینل کا میڈیا ورکر رہا، کیمرہ مین سے ڈائریکٹر تک اور اس سے پہلے شہداد پور میں بھترین اداکار، ڈائریکٹر بھی رہا، اس دوران سوال کیا کہ کیا نوکری چھوڑ دی ہے؟ کیا تو یک دم بولا کے کے چینل مالکان کی اپنی جنگ ہوئی ھم نے پوری جوانی اس چینل کو دی مگر ان کی جنگ میں مجھے چینل والوں نے نکال دیا تھا۔

کافی عرصہ مسلسل دھکے کھانے کہ بعد اب محنت مزدوری کر رہا ہوں، اپنا پیٹ پالتا ہون کسی سے خیرات یا بھیک نہیں لیتا اور پتا چلا ہے کہ اپنی مزدوری اپنی ہے تو میں بے کہا کہ بلکل اپنی مزدوری اپنی ہے۔

یہ بات مین یہاں موجود میڈیا کے ان دوستوں کو کافی عرصے سے سمجھا رہا ہوں کہ میڈیا کی نوکری پر انحصار مت کیجئے، اپنا ٹھیلا لگائیں۔ اور میں نے شاھد قمبرانی کو محنت مزدوری پر سلام پیش کیا اور جب اس سے مزید کچھری کی تو اس نے بتایا کہ غربت کی وجہ سے مجھے اپنے خونی رشتے سگی اولاد بھی چھوڑ چکی ہے، بس زندگی میں پیسہ اور عروج کو سب پوجتے ہیں۔

اسکے یہ جملے سنکر میں ابتک سوچ میں ہوں کہ یہ جو ہمارے میڈیا کے ورکرز مختلف ٹیلویزن چینلز کے ملازمین ہیں ان کو کیسی دربدری کا شکار ہونا پڑا ہے اور اس کا فائدہ مالکان اٹھا لیتے ہیں اور میڈیا ورکر بے سہارا ہوجاتے ہیں۔ کوئی مستقبل نہیں پرائیویٹ ٹیلی ویژن کے ورکرز کا اور انکی کوئی مصیبت میں مدد تو دور کی بات کوئی آواز بھی نہیں بنتا۔

شاہد قمبرانی نے کہا کہ چینلز کی نوکری نے زندگی کا سبب سکھا دیا ہے۔

شاھد قمبرانی کی اجازت سے یہ سطور بہت مشکل سے لکھی اور ابتک ایسے بے تحاشا کرادار ہمارے اردگرد موجود ہیں جن کی مصیبت کا ہمیں پتا بھی نہیں ہے، قمبرانی بہترین اداکار ڈائریکٹر رہا،  جسکی مکمل مدد کرینگے حکومت سے وظیفہ دلوانے سے لیکر اپنے مخیر دوستوں کے تعاون سے کوئی ایسا کاروبار کھول کر دینے کی پلانگ کرینگے کہ یہ روڈوں پر مصیبت کے ساتھ کاروبار کرنے سے بچ سکے۔

باقی میڈیا ورکرز سے گزارش ہے کہ اپنے لیے اور اپنی زندگی کیلیے درست فیصلہ کیجے زندگی ایک بار ملتی ہے اسکی قدر کیجیے جو دوست اس دوست شاھد قمبرانی کی زندگی میں بہتری کیلیے کوئی مدد کرنا چاہیے تو آگے بڑھ کر رابطہ کریں، آئیں مل کر ہم سب مدد کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں: