نامور مصنف سید غلام مصطفیٰ کی 100ویں‌ سالگرہ

کراچی( محمد دانیال شاہد ) نامور ماہر تعلیم، مصنف اور سندھ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید غلام مصطفی شاہ کی 100ویں سالگرہ کے موقع پر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منققدہ تقریب میں صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے سندھ سرونٹس سوسائٹی کے صدر فضل سلمان قاضی نے کہا ہے کہ سید غلام مصطفی شاہ ایک بہادر شخصیت کے مالک تھے وہ اپنی بات محکموں اور اعلیٰ حکومتی افراد کے سامنے کرنا جانتے تھے ،وہ بہت بڑے ماہر تعلیم ،اسکالر اور عوامی دانشور تھے۔

اس موقع پر مہتاب اکبر راشدی ،سابق سنیٹر جاوید جبار،ایس ایم لاءکالج کے پرنسپل سلمان فاروقی ، ڈاکٹر سلمان شیخ ،سندھ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مظہر الحق صدیقی ،سید محب اللہ شاہ ،پروفیسر غلام محمد لاکھو،غلام محمد شاہ کے صاحبزادے سید رفیق شاہ اور سندھ سرونٹ سوسائٹی کے سیکرٹری اعجاز قریشی نے بھی خطاب کیا۔

اعجاز قریشی نے تقریب میں مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ آج ہم ایک ایسی شخصیت کی 100 سالہ جشن ولادت منارہے ہیں جن کی تعلیم کی شعبہ میں بے شمار خدمات ہیں وہ سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے ،میں سمجھتا ہوںکہ سندھ یونیورسٹی کے لئے باعث افتخار ہے ان جیسی شخصیت سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔مہتاب اکبر راشدی نے کہاکہ میرا ان کے ساتھ قریبی تعلق تھا،ان کی بہت ساری خوبیوں میں جو خوبی میں نے دیکھی وہ یہ بھی تھی کہ وہ نوجوانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھتے تھے ، نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا ماحول فراہم کرتے،دنیا کی دیگر اقوام کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے بھر پور مواقع فراہم کرتے،اپنے شاگردوں اور ساتھیوں کی دوستوں کی طرح رہنمائی کرتے، وہ ایک دور اندیش شخصیت کے مالک تھے۔

جاوید جبار نے کہا کہ وہ ایک سندھی محقق ،دانشور اور ماہر تعلیم تھے لیکن ان کی سوچ سندھ سے بڑھ کر پوری انڈس تہذیب کی عکاسی کرتی تھی ،جب وہ سندھ سرونٹ سوسائٹی کے نگراں تھے اس وقت بھی انہوں نے پوری انڈس تہذیب اور اقدار کا تحفظ کیا۔سید محب اللہ شاہ نے کہا ہے کہ آج کے اس اجتماع کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سید غلام مصطفی شاہ نے کس طرح مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے ساتھ مختلف زاویوں سے تعلق قائم کیا تھا۔سلمان فاروقی نے کہا کہ 1953 سے 1957 تک ایس ایم لاءکالج میںمیں ان کا شاگردتھا اور وہ ایک نوجوان جاذب نظر شخصیت کے مالک کالج کے پرنسپل تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں ان جیسا باہمت منتظم نہیں دیکھا، طلباءتنظیموں پر پابندی لگانے کی بات سامنے آئی تو انہوں نے اپنے کالج میں طلباءتنظیم پر پابندی لگانے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ طلباءتنظیموں کے بغیر معاشرے میں قیادت پیدا نہیں ہوسکتی۔سلمان شیخ نے کہا کہ سندھ کے سید گھرانے میں پیدا ہونے والے سید غلام مصطفیٰ شاہ نے لوگوں میں اپنی مذہبی قیادت کی بجائے تدریس کا شعبہ اپنایا، ڈاکٹر رفیق مصطفی شا ہ نے کہا کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینا چاہتے تھے لیکن جاگیردار اور زمیندار نہیں چاہتے تھے کہ لڑکیوں کو تعلیم دی جائے مجھے یاد ہے محترمہ فاطمہ جناح اکثر ہمارے گھر آتی تھیں اوروالدسے مختلف معاملات میں مشاورت کرتی تھیں ایک مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو سندھ یونیورسٹی آئے جب غلام مصطفی شاہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے طلباءسے خطاب کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں وائس چانسلر آتے ہیں چلے جاتے ہیں لیکن آپ لوگ خوش نصیب ہیں کہ غلام مصطفی شاہ جیسی شخصیت جو اپنی ذات میں خود ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں آپ کے وائس چانسلر ہیں۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر ایوب شیخ نے سر انجام دیئے۔