سندھ حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت رینجرز کو سندھ میں وہی اختیارات دینے پر غور کر رہی ہے جو اسے پنجاب میں حاصل ہیں۔
پنجاب میں پاکستان رینجرز کو آئین اور سندھ میں انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت اختیارات حاصل رہے ہیں۔
سندھ میں رینجرز کو انسداد دہشتگردی کے قانون کی شق 3 کے تحت پولیس کے اختیارات حاصل تھے جن کی مدت 3 روز قبل ختم ہوچکی ہے۔ ان اختیارات کے مطابق رینجرز بغیر وارنٹ کے گرفتاری کا اختیار رکھتے تھے اور کسی کو شک کی بنیاد پر 90 دن تک حراست میں بھی رکھنے کا اختیار حاصل تھا۔
اس کے علاوہ رینجرز دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان سمیت کسی جرم کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو گرفتار کرنے کا بھی اختیار رکھتے تھے۔
کراچی میں جاری آپریشن کے بھی یہی نکات تھے۔ان ہی اختیارات کے تحت رینجرز نے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ مارا، اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عاصم حسین، عبدالقادر پٹیل، نثار مورائی سمیت ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کے کارکنوں کو حراست میں لیا۔
کراچی میں رینجرز کسی بھی مشکوک مقام پر وارنٹ یا مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر داخل ہوکر تلاشی لے سکتے تھے۔
سندھ حکومت نے کراچی آپریشن بند کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے رینجرز کے اختیارات کو محدود کردیا pic.twitter.com/AIwfWFQXap
— ذرائع نیوز (@ZarayeNews) April 18, 2017
سندھ کے برعکس پنجاب میں رینجرز کو آئین کے آرٹیکل 147 کے تحت اختیارات دیے گئے ہیں۔ پنجاب میں رینجرز نہ تو مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر کسی کو گرفتار سکتے ہیں اور نہ ہی کسی مشکوک جگہ پر چھاپہ مار سکتے ہیں۔ کسی بھی آپریشن سے قبل رینجرز حکام کو محکمہ داخلہ کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔
اسی طرح رینجرز کو کسی کو صرف شک کی بنیاد پر 90 روز تحویل میں رکھنے کا بھی اخِتیار نہیں اور نہ ہی وہ ناکہ بندی کرسکتے ہیں۔ پنجاب میں رینجرز کو ایف آئی آر درج کرنے کا اختیار نہیں ہے اور وہ بوقت ضرورت پولیس اور انسداد دہشت گردی کے محکمے کو معاونت فراہم کرسکتے ہیں۔
سندھ کے وزیر قانون ضیا الحسن لنجار کا کہنا ہے کہ رینجرز کو پنجاب کی طرز پر اختیارات دینے کا بھی جائزہ لیا جائے گا تاہم رینجرز کو اختیارات دینا وزیر اعلیٰ کا اختیار ہے۔
صوبائی وزیر قانون ضیا لنجار کا مزید کہنا تھا کہ رینجرز کو پولیس اختیارات کے علاوہ باقی تمام اختیارات حاصل ہیں۔
’وہ سنیپ چیکنگ، ناکہ بندی، اہم تنصیبات کی حفاظت، یہ سب کچھ کر سکتے ہیں اور حکومت انہیں اس کی سالانہ ادائیگی کرتی ہے۔ جہاں تک بات ہے کہ پولیس کے اختیارات کی تو اس کی منظوری کابینہ دے گی جس کے لیے وزیر اعلیٰ کابینہ کا اجلاس طلب کریں گے۔‘
انھوں نے واضح کیا کہ رینجرز کو گشت، چھاپوں، چیکنگ اور چیک پوسٹوں پر رہنے کے اختیارات ہیں جبکہ 90 روز تک تحویل میں رکھنے کے اختیارات چند روز میں مشاورت کے بعد دیے جائیں گے۔
اس بیان کے برعکس رینجرز کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ رینجرز کو انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت تلاشی، گرفتاری آپریشن کے اختیارات کی معیاد 15 اپریل کو ختم ہو چکی ہے۔
رینجرز ترجمان نے واضح کیا ہے کہ رینجرز فی الوقت آئین کی شق 147 کے تحت کراچی میں موجود ہے، جس کے مطابق کسی بھی انتہائی ایمرجنسی، آپریشن یا ضرورت کے تحت پولیس حکام یا ضلعی انتظامیہ کی جانب سے طلب کرنے پر مدد فراہم کرسکتی ہے۔
رینجرز کا موقف اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ فی الحال سندھ اور پنجاب میں اس کا کردار یکساں ہے۔
سندھ کے محکمہ داخلہ کا موقف رینجرز کے موقف سے مختلف نظر آتا ہے۔
محکمہ داخلہ کے اعلامیے کے مطابق یکم اگست 2016 کو جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن میں رینجرز کا کردار واضح کردیا گیا تھا، جس کے تحت اس کے فرائض میں چوکیوں کا قیام، سڑکوں پر گشت، حساس مقامات کی حفاظت، مذہبی اجتماعات اور بڑے عوامی اجتماعات کے موقع پر پولیس کی معاونت، غیر ملکی شخصیات، صدر اور وزیر اعظم کے کراچی کے دورے کے موقع پر سیکیورٹی فراہم کرنا شامل ہے۔
محکمہ داخلہ کا کہنا ہے کہ رینجرز کو اپنا انٹیلیجنس نیٹ ورک بنانے اور انٹیلیجنس بنیاد پر آپریشن کا بھی مینڈیٹ حاصل ہے۔
سندھ میں حکمران پاکستان پیپلز پارٹی رینجرز کو حاصل 90 روز حراست میں رکھنے کے اختیارات پر تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے۔ پنجاب میں رینجرز کے محدود اختیارات کے بعد صوبائی حکومت کی مشکل آسان ہوگئی ہے اور اس کو ایک دلیل مل گئی ہے۔
حکمران جماعت کے تین رہنما لاپتہ ہے، جن کے لواحقین نے عدالت میں دائر پٹیشن میں شبہ ظاہر کیا ہے کہ وہ ریاستی اداروں کی تحویل میں ہیں۔