ڈان لیکس پر مفاہمت یا پھر رضا مندی ہونے کے بعد پورے ملک میں ایک شور برپا تھا، جس کو دیکھو چواننی جیسا منہ لے کر پاک فوج کی پالیسیوں اور جمہوری حکومت پر طعنے کس رہا تھا۔
ڈان لیکس کے حوالے سے ٹوئٹ واپس لینے سے پہلے کچھ اینکر پرسنز نے نواز لیگ اور مریم نواز کو ملنے والے اسکرپٹ کے مطابق قصور وار قرار دیا تو کسی بڑے نتھنے والے سیاستدان نے مریم کو جیل میں بھیجنے کی نوید سنا دی۔
ڈان لیکس کمیشن کا نوٹی فکیشن جیسے ہی آیا تو اسے پاک فوج نے مسترد کیا جس پر چھتری کے نیچے آنے والی جماعتوں کے قائدین اور اسکرپٹ ملنے والے اینکرز نے خوب شادیانے بجائے اور نوٹی فکیشن کو پاک فوج کے خلاف بلیک ملینگ قرار دیا۔
حکومت نے بھی صورتحال کی سنگینی کو دیکھ کر خاموشی اختیار کی اور بیان دینے کے بجائے دو رکنی کمیٹی بنا کر اپنے بندے آبپارہ کی طرف دوڑا دیے، شہباز شریف اور چوہدری نثار کی کوشش رنگ لائیں اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے نوٹی فکیشن کے حوالے سے لب کشائی کر ڈالی۔
آصف غفور نے جیسے ہی ٹوئٹ واپس لینے کا اعلان کیا اور نوازشریف کو فائنل اتھارٹی قرار دینے کا اعلان کیا اُسی وقت کچھ ٹاک شوز کے پروڈیوسرز نے کالے شامیانے اور اسپیکر منگوانے کا آرڈر کردیا، کچھ ناعاقبت اندیش اینکرز نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس یا پاک فوج کی جانب سے ڈان لیکس کا معاملہ واپس لینے کو 1971 کی طرح کی ڈیل قرار دیا تو تحریک انصاف کے ٹائیگرز (چیتے، چیتیاں) بھی جنہیں کل تک شکریہ کہہ رہے تھے انہی کے خلاف لغویات بکنے لگے۔
جب گھر کے بچے ہی سربراہ کو برا بولنا شروع کردیں تو خاندان کا کوئی ایک شخص آگے بڑھتا ہے اور اس شور کو ختم کرنے کے لیے بچوں کا دھیان کسی اور موضوع پر لگا دیتا ہے تاکہ اصل کہانی ختم ہوسکے اور سربراہ کا تقدس بحال رہے، موضوع اس قدر حساس ہوتا ہے کہ سب پرانی بات بھول کر نئی بتی کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔
آج ہونے والے افسوس ناک دھماکے میں 27 افراد جاں بحق ہوئے جس میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بھی زخمی ہوئے تاہم اس سانحے کے بعد وہی صورتحال ہوگئی جو اوپر والے پیرا گراف میں تحریر کی گئی۔